سلامتی کونسل کی مستقل رُکنیت کے لئے نئی دہلی اور برلن کا گٹھ جوڑ
11 دسمبر 2010میرکل کے ساتھ ان کا ایک مُشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب بھی متوقع ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اگرچہ محض چند گھنٹوں کے لئے برلن آئے ہیں، تاہم اُن کے اس دورے کو مبصرین غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ بھارت اور جرمنی دونوں کو سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت ملنے کے بعد اب دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ انہیں مستقل رکنیت مل جائے۔
امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ من موہن سنگھ کی آج برلن میں جرمن حکام کے ساتھ ملاقات کا اہم ترین موضوع یہی رہے گا۔ اس کے علاوہ جرمنی چونکہ یورپ میں بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اس لئے نئی دہلی قیادت تجارتی اور اقتصادی شعبوں میں جرمنی کے ساتھ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کررہی ہے۔ اسی کی ایک کڑی من موہن سنگھ کا برلن کا یہ دورہ بھی ہے جس میں اُن کے ہمراہ بھارت کا ایک بڑا تجارتی وفد بھی برلن پہنچا ہے۔ اس میں بھارت کے وزیر صنعت سمیت کئی اعلیٰ اقتصادی شخصیات بھی شامل ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ بھارت جرمنی سے سرمایہ کاری کے شعبے میں مزید تعاون کے حصول کی کوشش کرے گا۔
بھارتی وزیر اعظم نے گزشتہ روز برسلز میں یورپی یونین اور بھارت کی سمٹ کے موقع پر پاکستان کو یورپی اتحاد کی طرف سے تجارتی مراعات دئے جانے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جبکہ یورپی یونین نے یہ فیصلہ رواں برس پاکستان میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کے بعد اس ملک کو درپیش گوناگوں مسائل کے پیش نظر کیا ہے۔ تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ یہ مراعات غیر ضروری ہیں اور یہ کہ امداد کے بجائے پاکستان کے لئے تجارتی آسانیاں پیدا کرنے کا فیصلہ غلط ہے۔ پاکستان کو تجارتی مراعات دینے کا منصوبہ برطانیہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا تاہم جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اس کی بھرپور حمایت کی تھی جس کے بعد دراصل یہ یورپی یونین کی سطح پر طے پایا تھا۔ برلن میں من موہن سنگھ اس موضوع پر بھی جرمن چانسلر اور صدر کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اور بھارت کے مابین یہ موضوع اختلاف کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ یورپی یونین کے رکن ممالک کا ماننا ہے کہ تباہ کُن سیلاب سے پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ جس طرح تباہ ہوا ہے اُس کی تعمیر نو کے لئے یہ مراعات ناگزیر ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ گزشتہ روز یعنی جمعہ کو برسلز میں تھے جہاں یورپی یونین اور بھارت سمٹ کا انعقاد ہوا جس کے بعد ایک مُشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ تمام قوموں اور ملکوں پر زور دیا جائے گا کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو سرے سے اکھاڑ پھینکیں۔ اس سلسلے میں اگرچہ کسی بھی ملک کا نام نہیں لیا گیا تاہم مغربی ممالک مسلم انتہا پسندوں سے خائف ہیں اور انہوں نے اپنے ہاں سکیورٹی کو ہائی الرٹ رکھا ہوا ہے۔ برسلز میں من موہن سنگھ اور یورپی یونین کے لیڈران کی بات چیت میں ممبئی حملوں کی طرز کے حملوں سے یورپی ممالک کو لاحق خطرات کا موضوع بھی زیر بحث رہا۔ بھارت سمیت مغربی دنیا افغانستان کی سرحد سے ملحق پاکستان کے شمال مشرقی قبائلی علاقے کو مسلم انتہا پسندوں کا گڑھ قرار دیتی ہے۔
دہشت گردی کا موضوع، خاص طور سے پاکستان کے تناظر میں بھی اہم ہے جس پر بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اپنے چند گھنٹوں پر محیط برلن کے دورے کے دوران جرمن قائدین کے ساتھ بات چیت کرنا چاہٍیں گے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: ندیم گِل