سلووینیہ: حکومتی فیصلے کے بعد سرحدی باڑ کی تعمیر کی تیاریاں
11 نومبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے سلووینیہ کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ کروشیا سے متصل سرحدی راستوں پر باڑ تعمیر کی جائے گی تاکہ مہاجرین کے سیلاب کو روکنے میں مدد مل سکے۔ بدھ گیارہ نومبر کے دن ٹرکوں کے ذریعے خار دار تاریں سرحدی قصبے ویلیکی اوبرز پہنچا دی گئیں جبکہ باڑ کی تعمیر کا کام بھی جلد ہی شروع کر دیا جائے گا۔
کل منگل کے دن لُبلیانا حکومت نے اعلان کیا تھا کہ کروشیا سے ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین کی آمد روکنے کی خاطر سرحدوں پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ روئٹرز کے فوٹوگرافروں نے بتایا ہے کہ بدھ گیارہ نومبر کو ویلیکی اوبرز میں فوجیوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد دیکھی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ تعمیراتی آلات سے بھی لیس ہیں۔
سلووینیہ یورپ کا ایک انتہائی چھوٹا سے ملک ہے، جو جرمنی، آسٹریا یا شمالی یورپی ممالک پہنچنے کے خواہش مند مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے ایک اہم روٹ بن چکا ہے۔ قبل ازیں یہی مہاجرین ہنگری کے راستے آسٹریا یا جرمنی جانے کی کوشش میں تھے لیکن ہنگری کی طرف سے کروشیا کے ساتھ اپنی سرحدوں کے بند کر دیے جانے کے بعد اب یہ مہاجرین سلووینیہ کا راستہ اختیار کرنے لگے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اکتوبر سے اب تک کم ازکم ایک لاکھ اسّی ہزار مہاجرین اور تارکین وطن سلووینیہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ یورپی یونین کی رکن یہ چھوٹی سی ریاست اس قابل نہیں ہے کہ وہ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو انتظامی مدد فراہم کر سکے یا ان کا اندراج کر سکے۔
یہ مہاجرین آسٹریا اور جرمنی میں داخل ہونے کے لیے سلووینیہ کو صرف ایک راستے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق کروشیا کے علاوہ مقدونیہ اور سربیا میں داخل ہونے والے ہزاروں مہاجرین بھی یورپی یونین کے امیر رکن ممالک میں داخل ہونے کی کوشش میں ہيں۔
سلووینیہ کے وزیر اعظم میرو سیرا کے بقول سرحدی راستوں پر باڑ تعمیر کرنے کا مقصد مہاجرین کی ملک میں آمد کو منظم بنانا ہے۔ منگل کے دن انہوں نے کہا کہ سرحدی راستے کھلے رہیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کے ملک کے پاس وسائل نہیں ہیں کہ وہ اس بحران سے اکیلا ہی نبرد آزما ہو سکے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک نے 175 پولیس اہلکار سلووینیہ تعینات کر رکھے ہیں تاکہ وہ مقامی فورسز کو تعاون فراہم کر سکیں۔ مہاجرین کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین کے رکن ممالک سے تعلق رکھنے والے مزید سو سکیورٹی اہلکار بھی جلد ہی سلووینیہ روانہ کر دیے جائیں گے۔