سمارٹ فون کرہٴ ارض کے لیے اتنے بھی سمارٹ نہیں
14 مارچ 2017صبح کے آٹھ بجے، مسافروں سے بھری ہوئی ٹرین، ہر کوئی کام پر جا رہا ہے اور ایسا کوئی مسافر ڈھونڈنا مشکل ہے جو اپنے سمارٹ فون کے ساتھ مصروف نہ ہو۔ ایسا خاص طور پر مغربی دنیا کے بیسیوں ملکوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ پھر تحفظ ماحول کی عالمی تنظیم گرین پیس کی طرف سے یاد دہانی کے لیے ٹوئٹر پر ایک پیغام آتا ہے: ’’یہ بھی سوچیے کہ آپ کا پسندیدہ سمارٹ فون کرہٴ ارض کے لیے کس قسم کے منفی اثرات کا باعث بن رہا ہے۔‘‘
دو ہزار سات میں جب امریکی کمپنی ایپل نے عالمی منڈیوں میں اپنا پہلا آئی فون متعارف کرایا تھا، تب سے اب تک دنیا بھر میں قریب سات بلین سمارٹ فون فروخت کیے جا چکے ہیں۔ یہ تعداد قریب قریب زمین پر انسانی آبادی کے برابر بنتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ کوئی بھی صارف اپنا پسندیدہ کوئی ایک سمارٹ فون عمر بھر استعمال کرتا، تو بھی کوئی بات تھی، لیکن ایسا تو ہوتا نہیں۔
گرین پیس کے مطابق امریکا جیسے ملکوں میں ایک عام صارف کوئی بھی جدید سے جدید تر سمارٹ فون بھی زیادہ سے زیادہ دو سال تک استعمال کرتا ہے۔ اکثر صارفین اپنے سمارٹ فون اس لیے نہیں بدلتے کہ ان میں کوئی ایسی تکنیکی خرابی پیدا ہو جاتی ہے، جس کی مرمت نہ کی جا سکتی ہو۔ اس کے برعکس ایسا اکثر صرف فون کے تازہ ترین ماڈل کا مالک ہونے کی خواہش کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسے صارف بہت ہی کم ہوں گے جو رات کو سونے سے پہلے اپنا فون نہ دیکھتے ہوں یا جن کا صبح اٹھ کر پہلا کام اپنے فون پر رات کو آنے والے پیغامات چیک کرنا نہیں ہوتا۔ معاشرہ کوئی بھی ہو، سمارٹ فون صارفین کی زندگی کا ہر لمحہ ابلاغ کے اس جدید ترین ذریعے کا محتاج ہو چکا ہے، عملی اور ذہنی دونوں سطحوں پر۔
گزشتہ برس پوری دنیا میں 1.4 بلین نئے سمارٹ فون فروخت ہوئے۔ 2020ء تک یہ سالانہ تعداد دگنی ہو جائے گی۔ 2015ء کی ایرکسن موبیلیٹی رپورٹ کے مطابق تو دو سال پہلے بھی دنیا کے 70 فیصد انسانوں کے پاس کوئی نہ کوئی سمارٹ فون موجود تھا۔ عالمی سطح پر 18 سے لے کر 35 برس تک کی عمر کے 60 فیصد سے زائد انسانوں کے پاس سمارٹ فون موجود ہیں۔ جرمنی اور امریکا جیسے ملکوں میں تو یہ شرح 90 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
گرین پیس کے مطابق یہ رجحان دیرپا ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ اس طرح عالمی آبادی اپنے مجموعی وسائل کو دیرپا اور قابل تجدید بنیادوں پر استعمال نہیں کر رہی۔ اپنے سمارٹ فون بدلنے والے 80 فیصد سے زائد صارفین جب ایسا کرتے ہیں تو ان کے پرانے سمارٹ فون ابھی اچھی طرح کام کر رہے ہوتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی سمارٹ فون کے کئی اندرونی پرزے ایسی کمیاب یا قیمتی زمینی دھاتوں سے تیار کیے جاتے ہیں، جن میں ایلومینیم، سونا اور کوبالٹ بھی شامل ہیں۔ یہ دھاتیں زیادہ تر افریقہ میں ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو جیسے ملکوں سے نکالی جاتی ہیں، جو مسلح تنازعات یا خانہ جنگیوں کا شکار ہیں اور جہاں ایسے تنازعات کے متاثرین میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔
‘بھارت کی سیلیکون ویلی اب کوڑے کی بدبو سے تنگ‘
سمندروں میں پلاسٹک کے کوڑے کا مسئلہ: ریسرچرز کا انوکھا خیال
نیو یارک میں اب پلاسٹک بیگ مفت نہیں ملیں گے
ان دھاتی پرزوں کے علاوہ کسی بھی سمارٹ فون کے کئی حصے خام تیل سے حاصل کیے جانے والے ایسے پلاسٹک سے بنائے جاتے ہیں، جس کی تیاری میں بے تحاشا قدرتی وسائل استعمال ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت بہت سے صارفین نہیں جانتے کہ اگر بات صرف کسی ایک دو سمارٹ فونز کی ہوتی تو شاید کوئی مسئلہ نہ ہوتا، لیکن سات بلین سمارٹ فونز، اور پھر ہر ایک دو سال بعد ایسے نئے موبائل فونز کی خریداری کا مطلب ہے کہ کرہٴ ارض کے ان قیمتی وسائل کو بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، جو بہرحال لامحدود نہیں ہیں۔
زمیں پر آباد اربوں انسان ہر سال جتنا الیکٹرانک کوڑا پیدا کرتے ہیں، اس کا سالانہ حجم مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2014ء میں ایسے الیکٹرانک کوڑے یا e-waste کا مجموعی حجم 42 ملین ٹن رہا تھا۔ اقوام متحدہ کی یونیورسٹی کے ایک جائزے کے مطابق صرف ایشیا میں ایسے الیکٹرانک کوڑے کے سالانہ حجم میں گزشتہ محض پانچ برسوں میں 63 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
ایشیا: الیکٹرانک کچرے میں حیران کن اضافہ
جب سمارٹ فون اور کمپیوٹر نشہ بن جائے ...
اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ تین سال پہلے پوری دنیا میں جتنا بھی الیکٹرانک کورا کرکٹ پیدا ہوا تھا، اس کا 80 فیصد سے زائد حصہ ری سائیکل نہیں ہو سکا تھا اور اسے مختلف ملکوں میں ایسے کوڑے کے زمین کے اوپر یا زیر زمین ڈھیروں کی صورت میں پھینک دیا گیا تھا۔ یورپی کمیشن کے مطابق ایسے نقصان دہ کوڑے کو زمین میں دفن کر دینا اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا سب سے برا طریقہ ہے کیونکہ اس طرح زمین، زیر زمین پانی اور ہوا تک میں زہریلے اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔
سمارٹ فون تیار کرنے والی کمپنیوں کی آمدنی اور صارفین کی خواہشات کو دیکھا جائے تو ایسا کوئی نیا فون خریدنا اچھا ہوتا ہے، کارکردگی مزید بہتر اور قیمت کم۔ لیکن اگر طویل المدتی بنیادوں پر زندگی گزارنے کے ماحول دوست طریقوں اور کرہٴ ارض کے کم پڑتے جا رہے قدرتی وسائل کو دیکھا جائے تو ہم سب کو اپنے آج کے بجائے آنے والے کل کا بھی سوچنا چاہیے۔ کرہٴ ارض پر آباد انسانوں کی تعدادجتنی بھی ہو، ہمیں اس سیارے کو قابل رہائش رکھنا ہو گا۔ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔