سندھ کی بے آسرا ہندو آبادی، ایک لاکھ کے بدلے لڑکی اٹھا لی
23 دسمبر 2016جیوتی کی ماں امیری کاشی کوہلی کو یقین ہے کہ اس کی بیٹی نے ان کے قرض کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کو امیری نے بتایا کہ اس کے شوہر نے زمین پر کام کرنے سے قبل لگ بھگ پچاس ہزار روپے کا قرضہ لیا تھا لیکن امیری کا کہنا ہے کہ وہ قرضہ واپس کر دیا گیا تھا۔
امیری کا کہنا ہے:’’میں پولیس کے پاس بھی گئی اور عدالت میں بھی، لیکن کوئی ہماری نہیں سن رہا۔‘‘ امیری کہتی ہے کہ زمیندار نے اس کی بیٹی کو زبردستی مسلمان کر لیا ہے اور اسے اپنی دوسری بیوی بنا لیا ہے۔‘‘
’گلوبل سروے انڈیکس‘ کے مطابق آج کے جدید دور میں بھی پاکستان میں بیس لاکھ افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس سروے کے مطابق پاکستان کا شمار ایسے تین ممالک میں ہوتا ہے، جہاں سب سے زیادہ تعداد میں لوگ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں، جو کھیتوں، اینٹوں کے بھٹوں اور گھروں میں بطور ملازم کام کرتے ہیں۔ انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات قید میں بھی رکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’ گرین رورل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ ایسے افراد کی رہائی کے لیے کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کے غلام حیدر کا کہنا ہے:’’ان افراد کے کوئی حقوق نہیں ہیں اور ان کی عورتوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘‘ حیدر کہتے ہیں کہ اکثر طاقت ور اور با اثر افراد خوبصورت لڑکیوں کو چنتے ہیں۔ ’ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ آرگنائزیشن‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان سے ایک ہزار مسیحی اور ہندو لڑکیوں کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے اور زبردستی مسلمان کر لیا جاتا ہے۔‘‘
جس رات جیوتی کو اس کے گھر سے اٹھایا گیا، وہ اپنے خاندان کے ساتھ گرمی کے باعث گھر کے باہر سو رہی تھی۔ جب سب صبح اٹھے، تو جیوتی غائب تھی۔ امیری مدد حاصل کرنے کے لیے ویرو کوہلی کے پاس گئی۔ ویرو خود بھی ایک غلام ہی پیدا ہوئی تھی لیکن سن 1999 میں وہ اس زندگی سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئی تھی اور تب سے وہ ان افراد کے لیے کام کرتی ہے، جو زمینداروں کے ہاں غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ویرو کہتی ہیں:’’مجھے پتہ ہے کہ یہ لوگ مجھے مار دیں گے لیکن میں لوگوں کو آزاد کرانا بند نہیں کروں گی۔‘‘
پانچ ماہ قبل ویرو کے دباؤ کے باعث پولیس نے امیری کی حامد بروہی سے ملاقات کرائی تھی، جس نے جیوتی کو زبردستی اٹھایا تھا۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ یہ لڑکی اس ایک لاکھ روپے کے بدلے میں لی گئی ہے، جو اس نے جیوتی کے خاندان کو دیا تھا۔
کچھ دنوں بعد پولیس نے ویرو کوہلی اور ایک غیر ملکی صحافی کی جیوتی سے ملاقات کروائی، جس کا نیا نام فاطمہ رکھا گیا ہے۔ بروہی نے اپنے گھر میں ان کا استقبال کیا۔ گھر میں جیوتی ہونٹوں پر لال سرخی لگائے بیٹھی تھی، اس کا سر کالی شال سے ڈھکا تھا۔ اُس نے کہا:’’میں نے اس شخص سے اپنی مرضی سے شادی کی۔‘‘
یہ بچی یہ نہ بتا سکی کہ وہ آخری مرتبہ اپنی والدہ سے کب ملی تھی۔ اگلے روز ویرو پولیس کے بغیر دوبارہ جیوتی سے ملنے گئی۔ اس گھر میں صرف عورتیں تھیں، جن میں سے کوئی جیوتی کو نہیں جانتا تھا۔ جس کمرے میں فاطمہ پچھلی مرتبہ بیٹھی تھی، آج وہ دروازہ بند تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے محض اس بچی سے اداکاری کروانے کے لیے گزشتہ روز ایک اسٹیج لگایا گیا تھا۔