سنوڈن گواہی دیں، یورپی پارلیمنٹ کی دعوت
10 جنوری 2014یورپی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے انصاف و شہری آزادیاں نے جمعرات کو ووٹنگ کے ذریعے اس منصوبے کی منظوری دی۔ چھتیس ووٹ اس منصوبے کے حق پڑے، دو اس کے خلاف تھے جبکہ ایک رکن نے ووٹ نہیں دیا۔
ایڈورڈ سنوڈن نے انکشاف کیا تھا کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کرتی رہی ہے۔ یہ معلومات سامنے آنے پر یورپی ملکوں میں امریکا کے خلاف سخت ردِ عمل دیکھنے میں آیا تھا۔
سنوڈن سے اس معاملے پر شہادت ویڈیو لِنک کے ذریعے طلب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے فی الحال کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق فوری طور پر یہ بھی واضح نہیں کہ آیا سنوڈن یہ دعوت قبول کریں گے یا نہیں۔ تاہم یورپی پارلیمنٹ کے جرمن رکن فلپ البریشٹ نےخدشہ ظاہر کیا ہے کہ سنوڈن گواہی نہیں دیں گے۔
یورپی ارکانِ پارلیمنٹ جاسوسی کے معاملات کی تفتیش کے ذریعے سفارشات کا مسودہ تیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ یورپی شہریوں کی نجی زندگیوں کا بہتر طور پر تحفظ کیا جا سکے اور یورپی اداروں کے آئی ٹی کے نظام کو محفوظ بنایا جا سکے۔
این ایس اے کی جانب سے جاسوسی کے انکشاف پر امریکا اور برلن کے تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ گزشتہ برس اکتوبر میں جرمنی کے اخبار بِلڈ اور میگزین ڈیر اشپیگل نے سنوڈن کی جانب سے عام کی گئی خفیہ دستاویزات کےحوالے سے یہ رپورٹ دی تھی کہ این ایس اے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے موبائل فون کی نگرانی کرتی رہی ہے۔
بعدازاں جرمنی کی گرین پارٹی کے ہانس کرسٹیان شٹرؤبیلے نے روس میں سنوڈن سے ملاقات کی تھی۔ وطن واپسی پر وہ سنوڈن کا ایک خط بھی ساتھ لائے تھے۔
جرمنی کی حکمران جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے ارکان نے سنوڈن سے شہادت کے حصول پر کھُلے پن کا مظاہرہ کیا تھا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاید سنوڈن اس مقصد کے لے جرمنی نہیں آ سکیں گے۔
ایڈورڈ سنوڈن جاسوسی کے پروگرام پرزم کا انکشاف کرنے پر امریکا کو مطلوب ہیں۔ اس پروگرام کے بارے میں معلومات ذرائع ابلاغ کو دینے کے بعد وہ ہانگ کانگ فرار ہو گئے تھے۔ وہاں سے وہ جون میں ماسکو پہنچے تاہم امریکا کی جانب سے شہریت کی منسوخی کی وجہ سے مزید سفر نہ کر سکے اور ماسکو ایئرپورٹ کے ٹرانزٹ زون میں ہی ٹھہرے رہے۔ اگست میں روس نے انہیں ایک سال کے لیے سیاسی پناہ دے دی تھی۔