سوئٹزرلینڈ: سنگین جرائم کے مرتکب تارکین وطن کی ملک بدری
29 نومبر 2010ان نتائج کو یورپی ملک سوئٹزرلینڈ میں تارکین وطن کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفت کا ایک اور ثبوت قرار دیا جارہا ہے۔ ملک بدری کی یہ تجویز دائیں بازو کی جماعت سوئس پیپلز پارٹی (SVP) کی جانب سے پیش کی گئی تھی جو کہ حالیہ برسوں میں ملک میں تارکین وطن کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات اور خوف کی وجہ سے ملک میں ایک نئی طاقت بن کر ابھری ہے۔
گزشتہ برس سوئٹزلینڈ نے ملک میں میناروں والی عمارات کی تعمیر پر پابندی لگائی گئی تھی جس کے بعد عالمی سطح پر اس فیصلے کی مذمت کی گئی۔ سوئس پیپلز پارٹی کے رہنما ٹونی برونر تارکین وطن سے توقعات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں، ’ہم چاہتے ہیں کہ وہ سب تارکین وطن جو سوئٹزرلینڈ میں رہتے ہیں وہ یہاں کے قوانین اور طور طریقوں کےمطابق رہیں۔‘ برونر کا مزید کہنا تھا کہ یہ ووٹ دراصل تارکین وطن کی طرف سے کئے جانے والے جرائم کو برداشت نہ کرنے کا واضح اشارہ ہے۔
دوسری طرف اس ریفرنڈم کے مخالف ہزاروں افراد نے زیورخ میں احتجاج کیا اور کئی دکانوں کے شیشے توڑ دئے۔ اس کے علاوہ دارالحکومت بیرن میں بھی قریب پانچ سو افراد نے اس ریفرنڈم کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ان میں سے کچھ افراد نے ملکی پارلیمان کے باہر تعینات پولیس پر بوتلیں اور برف کے گولے بناکر پھینکے۔
ایک سوئس ٹیلی وژن کے مطابق اتوار کے روز ہونے والے ریفرنڈم میں 53 فیصد ووٹروں نے ایسے تارکین وطن کو خودکار طریقے سے ملک سے نکال دینے کے حق میں ووٹ دیا جو قتل، آبروریزی ، انسانی یا منشیات کے سمگلنگ میں ملوث ہوں۔
اس تجویز کی مخالفت کرنے والی سوئٹزلینڈ کی بائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ کرسٹیان لیورَٹ کے بقول یہ صورتحال ملک کے لئے زیادہ خوش آئند نہیں ہے۔ سوئس حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کی کُل 77 لاکھ آبادی کا پانچواں حصہ غیرملکی تارکین وطن پر مشتمل ہے۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: عاطف بلوچ