سوات میں نظام عدل، آئینی یا غیر آئینی؟
22 اپریل 2009پاکستان کی وادیء سوات میں نظام عدل کے ضابطے یا شریعت کے نفاذ کے حوالے سے عالمی سطح پر زبردست خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں اور مقامی سطح پر بعض قانونی ماہرین سوُات ’’ڈیل‘‘ کو پاکستانی آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔
ان قانونی ماہرین میں پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل ملک عبد القیوم بھی شامل ہیں۔ ملک قیوم کے مطابق اگر سُوات کی شرعی عدالتوں کے فیصلوں کو پاکستان کی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے تو ''یقیناً یہ بات آئین سے متصادم ہے۔‘‘
بین الاقوامی امور کے بعض ماہرین کی رائے میں سُوات امن معاہدے سے متعلق عالمی خدشات حق بجانب ہیں۔ نوشین وصی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور میں لیکچرر ہیں۔ ڈوئچے ویلے اردوسے بات کرتے ہوئے نوشین وضی نے عالمی خدشات کو بہت حد تک صحیح قرار دیا۔
''اگر ایسے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ سُوات امن معاہدہ پاکستان میں شدت پسند عناصر کو مضبوط کرے گا اور یہ پاکستان کی حکومت کی کمزوری ظاہر کرتا ہے تو بہت حد تک یہ باتیں ٹھیک ہیں۔‘‘
تاہم بعض حلقے ایسے بھی ہیں جو سُوات امن معاہدے کی یہ کہہ کر حمایت کررہے ہیں کہ اس سے بحران زدہ وادی میں امن کا قیام ممکن ہے۔
جوخوبصورت وادی کبھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھی، آجکل انٹرنیشنل میڈیا کا فوکس ہے:
رواں سال فروری میں پاکستان کی وادیء سُوات میں صوبائی حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی نامی تنظیم کے مابین شرعی نظام عدل کے بدلے ایک امن معاہدہ طے پایا، جس پر اب پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے دستخط بھی ہوگئے ہیں۔
کیا اس معاہدے کی کامیابی کے حوالے سے توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں؟ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں مقیم معروف تجزیہ نگار اکرام سہگل کی اس معاہدے سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں ہیں تاہم ان کی رائے میں امن کے قیام کو ایک اور موقعہ دیا جانا چاہیے۔ ڈوئچے ویلے اردو سے بات چیت کرتے ہوئے اکرام سہگل نے کہا: ’’مولانا فضل اللہ کو پہلے بھی ہم نے آزمالیا ہے اور اس آزمائش میں وہ صحیح ثابت نہیں ہوئے۔ وہ اس ’ٹائم‘ کو استعمال کرتے ہیں دوبارہ منظّم ہونے کے لئے لیکن مولانا صوفی محمد کی جو ساکھ ہے، وہ کچھ اور ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سُوات امن معاہدہ کہاں تک جاتا ہے، بہرحال اس سے میری کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں ہیں۔‘‘
عالمی خدشات:
امریکہ، یورپ اور پاکستان کے ہمسایہ ملکوں، افغانستان اور بھارت، کی طرف سے سُوات امن معاہدے پر زبردست تنقید کی جارہی ہے جبکہ مقامی سطح پر بعض حلقے اس ''پیس ڈیل‘‘ کی حمایت کررہے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے پاکستان کے شمال مغربی صوبے کے بعض علاقوں میں شریعت کے نفاذ کو جمہوریت کے اصولوں کے منافی اور انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ وائٹ ہاوٴس کے ترجمان رابرٹ گبس کے مطابق نفاذ شریعت کا معاہدہ صرف طالبان عسکریت پسندوں کے حق میں ہے۔
امریکی سینیٹر جان کیری نے اپنے حالیہ دورہء پاکستان میں پاکستانی حکومت سے کہا کہ اسے بین الاقوامی خدشات کو دور کرنے کے لئے شدت پسندوں کے خلاف مزید سخت کارروائیاں کرنا ہوں گی۔
سُوات میں شریعت کے نفاذ پر پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان نے بھی سلامتی سے متعلق خدشات ظاہر کئے ہیں۔ سوات میں شرعی نظام عدل کے ضابطے پر اپنا ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے افغان حکومت نے کہا کہ اس معاہدے سے اب سرحد کے آرپار ’’طالبان عسکریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں۔‘‘
افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ہمایوں حمیدزادہ نے کہا کہ پاکستان کو اپنی اور اپنے پڑوسی ملک کی سلامتی کے مسائل کو مدنظر رکھنا ہوگا کیوں کہ شدت پسندوں کے ساتھ معاہدوں سے دونوں ملکوں کی سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
کیا پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو بین الاقوامی خدشات کا اندازہ نہیں تھا؟ آخرصوبہ سرحد کی حکومت سُوات میں امن معاہدہ کرنے پر کیوں راضی ہوئی؟
پشاور میں مقیم صحافی سید عرفان اشرف اس سوال کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں۔
’’اس حوالے سے شمال مغربی سرحدی صوبے کی حکومت سوچتی ہے کہ یہ معاہدہ زیادہ موثر ثابت ہوگا کیوں کہ اس میں صوفی محمد کو براہ راست شامل کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو مقامی طالبان عسکریت پسندوں کا اور صوفی محمد کا ایک ہی نعرہ ہے، اور وہ ہے سُوات میں شریعت کا نفاذ لیکن تحریک نفاذ شریعت محمدی پرامن طریقے سے شریعت کا نظام چاہتی ہے۔‘‘
نامور تجزیہ نگار اکرام سہگل کہتے ہیں کہ لوگ اکثر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ سُوات میں 1970ء تک شرعی عدالتیں قائم تھیں اور باضابطہ طور پرکام بھی کرتی تھیں۔ اکرام سہگل مزید کہتے ہیں کہ صوفی محمد جیسی ''اعتدال پسند شحضیت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
بہرحال وقت کے ساتھ ہی یہ معلوم ہوسکے گا کہ سُوات ''پیس ڈیل‘‘ ایک غلطی تھی یا پھر قیام امن کے حوالے سے ایک ''کامیاب کوشش‘‘!