آپ کو دوپٹہ اوڑھنا پسند ہے؟ یہ سوال میں نے انعمتہ سے تب کیا جب اس کی امی اسے مجھ سے ملوانے لائیں۔ کچھ روز قبل اس کی والدہ نے شدید پریشانی میں مجھے کال کی اور کہا مجھے آپ کی مدد درکار ہے۔ اس کی والدہ نے کہا کہ وہ خود نہیں جانتی کہ اپنی بیٹی میں آنے والی اس تبدیلی کی وجہ وہ کیسے تلاش کریں۔
کچھ ملاقاتوں کے بعد انعمتہ نے مجھے انسٹاگرام کا ایک پیج دکھایا، جو اس کے سکول کے نام سے بنایا گیا تھا بس آگے صرف ’میمز‘ لفظ کا اضافہ کیا گیا تھا۔ انعمتہ نے بتایا کہ اس پیج پر سکول کے بچوں کی تصاویر، سکول کے آفیشل پیج سے اٹھا کر مختلف کیپشنز کے ساتھ لگائی جاتی ہیں۔ انعمتہ کے ساتھ بھی یہی کیا گیا تھا۔ سانولا رنگ اور تھوڑا بھرا ہوا جسم ہونے کی وجہ سے اس کی تصاویر کے اوپر باڈی شیمنگ والے کیپشن لکھے گئے اور اسے سیاہ رنگ کی وجہ سے مختلف القابات دیے گئے۔
بظاہر یہ سب صرف سوشل میڈیا تک تھا مگر سکول میں بھی چپکے چپکے سب نے اسے اسی انداز سے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انعمتہ نے سکول سے چھٹیاں کرنا شروع کیں اور خود کو دوپٹے میں چھپانا شروع کر دیا۔
یہ صرف آغاز ہے۔ ایک بچی جس کی جسمانی ساخت کی تبدیلیوں کا وقت ہے اور اس دور میں وہ کن ذہنی اذیتوں سے گزرتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ مگر ایسے میں تعلیمی ادارے ہی شخصیت کو مسخ کرنے لگ جائیں تو طلباء کی ذہنی تربیت کون کرے گا؟
امریکا میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق صرف 40 فیصد والدین اپنے بچوں کی ذہنی صحت کے بارے میں پریشان نظر آتے ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی ذہنی صحت والدین کے لیے سب سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے، جبکہ 35 فیصد والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کے ساتھ اسکول یا کام کی جگہ پر ناانصافی کی جا رہی ہے۔
یہ 2020ء کی بات ہے جب فاسٹ یونیورسٹی لاہور کے طلباء کو اسی طرح اپنی یونیورسٹی کی خواتین اساتذہ کی میمز سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر عدالت سے سزا سنائی گئی تھی۔ یہاں سوال ان ننھے ذہنوں کا ہے، جو اپنی شعور کی سیڑھی پر قدم رکھ رہے ہیں مگر تہذیب، ادب آداب اور اخلاقی اقدار سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں، جس کی بڑی وجہ گھر والوں سے دوری اور موبائل اور انٹرنیٹ سے قربت ہو سکتی ہے۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بچوں کو بھیجنے کی ایک وجہ سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی اور حالت تو ہے ہی مگر دوسری اور بڑی وجہ طبقاتی امتیاز بھی ہے۔ اسی طبقاتی امتیاز میں 5 سال تک کے بچے کے پاس مہنگے والا فون اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ موجود ہوتا ہے۔ مگر چیک اینڈ بیلنس کے لیے والدین کے پاس وقت نہیں ہے۔
تعلیمی اداروں کے سربراہان ان میم پیجز کو سوشل میڈیا پر رپورٹ تو کر دیتے ہیں مگر طلباء کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان پیجز کے پیچھے کون ہے وہ طلباء سے سوال نہیں کر پاتے کیونکہ انہی طلباء کے والدین ان کے سب سے بڑے ڈونر ہوتے ہیں۔
بلال او لیولز کا طالب علم ہے مگر اس نے پرائیویٹ امتحان دینے کا فیصلہ کیا اور سکول چھوڑ دیا۔ والدین اس بات سے مطمئن ہو گئے کہ ہمارا بیٹا ذمہ دار ہو گیا ہے۔ بلال اپنے ہم جماعتوں میں قد میں چھوٹا تھا اور بھاری جسم رکھتا تھا۔ بلال کی طبیعت بہت دھیمی ہے اور عموما عام لڑکوں کی طرح لڑائی جھگڑے اور چھیڑ چھاڑ سے دور رہتا ہے۔ بلال نے بتایا کہ سکول کے میم پیجز پر اس کی تصاویر کو دوپٹہ اوڑھایا گیا اور اسے خواجہ سرا کے القابات دیے گئے۔
یہی نہیں بلکہ کلاس کی جس لڑکی کے ساتھ بیٹھ کر وہ پڑھتا تھا اس کی بھی کردار کشی کی گئی۔ بلال کا کہنا ہے کہ میری شکایت پر ہماری کوآرڈینیٹر نے تمام طلباء سے سختی سے بات کرتے ہوئے ان پیجز کو ڈیلیٹ کرنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ ورنہ سکول قانونی کارروائی کرے گا۔ لیکن نہ پیج ڈیلیٹ ہوا اور نہ ہی کوئی کارروائی۔ لیکن میں نے وہ سال مکمل ہونے کے بعد سکول چھوڑ دیا تاکہ ذہنی سکون کے ساتھ اپنی پڑھائی پر توجہ دے سکوں۔
ذہنی صحت کے حوالے سے عموما یہ بات سامنے آئی کہ بچوں پر پڑھائی اور گریڈز کا پریشر انہیں ذہنی بیمار بناتا ہے مگر اب ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سوشل میڈیا یا موبائل فون استعمال کرنے کے وقت پر نظر رکھیں کیونکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے بھی دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور منفی استعمال یقینا بچوں کے اعتماد میں بھی کمی لاتا ہے اور معاشرتی تعفن میں بھی اضافہ کرتا ہے۔
سوشل میڈیا کے اس بڑھتے سیلاب کو روکنا جتنا ناممکن ہے اتنا ہی ضروری بھی۔ بچوں میں باڈی شیمنگ کی وجہ سے بڑھتا خودکشی کا رحجان بڑے خطرے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ خواتین اساتذہ کے مرد اساتذہ کے ساتھ سیکنڈل بنانا، طلباء کے آپس میں افیئرز چلانا، بچیوں کی جسامت پر جملے کسنا، ہمارے معاشرے اور نسل کو بہت بڑے ذہنی بحران کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے سب چپ ہیں۔ والدین مصروف ہیں، اساتذہ مجبور اور سوشل میڈیا کا اژدہا بے لگام ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔