1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسویڈن

سویڈن، فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت: تیس ممالک نے دستخط کر دیے

5 جولائی 2022

نیٹو کے رکن تیس ممالک نے سویڈن اور فن لینڈ کی اس مغربی دفاعی اتحاد میں شمولیت کے پروٹوکول پر پانچ جولائی منگل کے روز دستخط کر دیے۔ ان ممالک کی رکنیت نیٹو میں سرد جنگ کے دور کے بعد کی اہم ترین اسٹریٹیجک توسیع ہو گی۔

https://p.dw.com/p/4Dh4p
دائیں سے بائیں: سویڈن کی وزیر خارجہ آنے لِنڈے، نیٹو سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ اور فن لینڈ کے وزیر خارجہ پیکا ہاویستوتصویر: Kenzo Tribouillard/AFP

شمالی یورپی ممالک سویڈن اور فن لینڈ ماضی میں ہمیشہ ہی غیر جانب دار رہے تھے۔ پھر کچھ ہی عرصہ قبل ان دونوں یورپی ریاستوں  نے باقاعدہ درخواستیں دے دی تھیں کہ انہیں بھی مغربی دفاعی اتحاد کا رکن بنایا جائے۔

کیا نیٹو مشرقی یورپ کو بچا سکتا ہے؟

ان درخواستوں کے بعد ہیلسنکی اور اسٹاک ہوم کی رکنیت کے پروٹوکول پر نیٹو کے پہلے سے رکن چلے آ رہے تمام 30 ملکوں کی طرف سے دستخطوں کے بعد یہ معاملہ اب تمام رکن ممالک کی حکومتوں کو بھیج دیا گیا ہے۔

تمام رکن ممالک کی طرف سے پارلیمانی توثیق لازمی

نیٹو کے تمام رکن ممالک کے قومی پارلیمانی اداروں کو اب ہیلسنکی اور اسٹاک ہوم کی درخواستوں کی توثیق کرنا ہے، اس لیے کہ اس تنظیم میں کسی بھی نئی ریاست کو صرف ارکان کے مابین اتفاق رائے سے ہی شامل کیا جا سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے لیے ایک ’نیٹو‘ قیام کے مرحلے میں؟

رکن ممالک کی طرف سے انفرادی سطح پر پارلیمانی توثیق کا یہ عمل زیادہ تر اس لیے ایک رسمی کارروائی ہو گا کہ انہی تمام ریاستوں کے نیٹو میں تعینات سفیروں یا مستقل نمائندوں نے تو رکنیت کے پروٹوکول پر دستخط کر دیے ہیں۔

NATO Gipfel in Madrid
چند روز قبل انتیس جون کو میڈرڈ میں ہونے والے نیٹو کے رکن ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت کی کانفرنس کے موقع پر لی گئی تصویرتصویر: Kenny Holston/Pool/AP/picture alliance

پروٹوکول پر دستخطوں کے موقع پر برسلز میں نیٹو کے ہیڈکوارٹر میں اس دفاعی بلاک کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے کہا کہ سویڈن، فن لینڈ اور خود نیٹو کے لیے آج کا دن حقیقی معنوں میں ایک تاریخی دن ہے۔

بڑی عالمی طاقتوں کے مابین مقابلے کا خطرناک مرحلہ

جس وقت نیٹو کے سربراہ اسٹولٹن برگ نے یہ بات کہی، اس وقت اس تنظیم کے تمام 30 رکن ممالک کے وزرائے دفاع بھی ان کے ہمراہ تھے۔ نیٹو سیکرٹری جنرل نے کہا، ''جب یہاں، اسی میز پر 32 ممالک کے نمائندے بیٹھے ہوں گے، تو ہم اور بھی زیادہ مضبوط ہوں گے۔‘‘

سویڈن اور فن لینڈ کو ابھی سے مل جانے والے حقوق

سویڈن اور فن لینڈ نے مغربی دفاعی اتحاد میں شمولیت کی درخواستیں روس کے یوکرین پر فوجی حملے کے بعد پیدا ہونے والی قومی اور علاقائی سلامتی کی صورت حال کی وجہ سے دی تھیں۔

رکن ممالک کی طرف سے پارلیمانی توثیق کا عمل مکمل ہونے اور دیگر انتظامی ضابطوں اور کارروائیوں کی تکمیل میں مجموعی طور پر ایک سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس کے بعد ہی رکنیت کے خواہش مند یہ دونوں ممالک اس اتحاد کے باقاعدہ رکن بن سکیں گے۔

سب سے بڑا اور براہ راست خطرہ روس، نیٹو کا نیا نظریہ سلامتی

لیکن رکنیت کے پروٹوکول کی تمام رکن ممالک کے سفیروں یا وزراء کی طرف سے توثیق کا یہ فوری نتیجہ بہرحال سامنے آ چکا ہے کہ سویڈن اور فن لینڈ اب نیٹو کے اجلاسوں میں باقاعدہ طور پر شرکت کر سکیں گے۔

اس کے علاوہ ان دونوں ملکوں کو اب یہ سہولت بھی حاصل ہو گئی ہے کہ انہیں نیٹو کی انٹیلیجنس معلومات تک بھی رسائی مل گئی ہے۔

ہیلسنکی اور اسٹاک ہوم تاہم مکمل رکن بننے تک اس دفاعی اتحاد کی رکنیت کی اس شق سے مستفید نہیں ہو سکیں گے، جس کے تحت کسی بھی تیسری ریاست کی طرف سے نیٹو کے کسی ایک بھی رکن ملک پر حملہ تمام رکن ریاستوں پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔

ترکی رضامند، فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کا راستہ ہموار

سرد جنگ کے بعد کے دور کی سب سے فیصلہ کن توسیع

سویڈن اور فن لینڈ کو مستقبل قریب میں ملنے والی نیٹو کی رکنیت مغربی دفاعی اتحاد کی تاریخ میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کے دور، خاص کر انیس سو نوے کی دہائی سے لے کر اب تک کی سب سے فیصلہ کن توسیع ہو گی۔

روس کے 'وحشیانہ حملوں' کے سبب یوکرین کو مزید ہتھیاروں کی ضرورت ہے، نیٹو

یوں سویڈن اور فن لینڈ عالمی سطح پر دفاعی شعبے میں بہت اہم کردار کے حامل اس عسکری اتحاد کا حصہ بن جائیں گے، جس کے پاس مجموعی طور پر ہزارہا جوہری ہتھیار بھی موجود ہیں اور جو کسی بھی دفاعی خطرے کا مل کر مقابلہ کرنے کا پابند ہے۔

امریکہ کی قیادت میں نیٹو کے رکن ممالک میں یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی اکثریت بھی شامل ہے اور مغربی دنیا کی تینوں بڑی ایٹمی طاقتیں امریکہ، برطانیہ اور فرانس بھی اس اتحاد کی رکن ہیں۔

م م / ک م (روئٹرز، اے ایف پی)