سویڈن نے بھی سرحدی نگرانی کا عمل شروع کر دیا
12 نومبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ سویڈن کی حکومت نے مہاجرین کے سیلاب کو روکنے کی خاطر ملک میں داخل ہونے والوں کی چیکنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابھی تک سویڈن ایک ایسا یورپی ملک رہا ہے، جس نے مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے تھے۔
تاہم مہاجرین کی بہت بڑے پیمانے پر آمد کی وجہ سے اسٹاک ہوم نے اب بارڈر چیکنگ نظام کا متعارف کرا دیا ہے۔ ملکی وزیر داخلہ آندریاس ایگمان نے جمعرات کے دن صحافیوں کو بتایا کہ نئے مہاجرین کی سویڈن آمد کی وجہ سے سکیورٹی خطرات لاحق ہو چکے ہیں، اس لیے عارضی طور پر یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ سویڈن نے یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک کے مقابلے میں اپنے ہاں فی کس آمدنی کے تناسب سے سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ حکام کا اندازہ ہے کہ رواں برس کے آخر تک اس شمالی یورپی ملک میں ایک لاکھ نوّے ہزار مہاجرین پہنچ سکتے ہیں۔
وزیر داخلہ آندریاس ایگمان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’یورپی یونین کے لیے ہمارا پیغام واضح ہے۔ سویڈن مہاجرین کے بحران میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ اگر ہم نے اس چیلنج سے نمٹنا ہے تو دیگر یورپی ممالک کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر سویڈن میں سرحدوں کی نگرانی کا عمل عارضی طور پر دس دنوں کے لیے شروع کیا جا رہا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر اس میں مزید بیس دنوں تک کی توسیع بھی ممکن ہے۔ سویڈن کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب یورپی اور افریقی ممالک کے رہنما مالٹا میں جاری ایک سمٹ میں مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس سمٹ میں شریک افریقی رہنما جمعرات کے دن اپنے اپنے ممالک واپس لوٹ جائیں گے، جس کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک ایک ہنگامی سمٹ میں اپنے طور پر اس صورتحال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
سویڈن نے گزشتہ ہفتے ہی عندیہ دیا تھا کہ وہ ملک میں داخل ہونے والے نئے مہاجرین کی رہائش اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ سویڈش حکومت کو اس بحران سے نمٹنے کے اس کے طریقہ کار پر ملکی اپوزیشن کی طرف سے بھی سخت تنقید کا سامنا ہے۔
سویڈن کی ایجنسی برائے مہاجرت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین کی مجموعی تعداد دس ہزار رہی۔ اس دوران ایک دن ایسا بھی تھا، جب سویڈن پہنچنے والے ان بے گھر غیر ملکیوں کی تعداد دو ہزار رہی تھی۔
مہاجرین کی تعداد میں اچانک اضافے کے باعث اسٹاک ہوم حکومت ان افراد کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنے میں مشکلات کا شکار ہے۔ اس صورتحال میں بہت سے مہاجرین بغیر کسی طرح کے شیلٹر ہاؤسز کے ریلوے اسٹیشنوں اور پارکوں میں ہی شب بسری پر مجبور ہیں۔
اس صورتحال میں وزیر داخلہ آندریاس ایگمان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ سینکڑوں مہاجرین کے پاس سونے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ بات سلامتی کی صورتحال کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ سویڈش حکومت نے یورپی کمیشن سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ اس ملک میں موجود کچھ مہاجرین کو دیگر رکن ریاستوں میں منتقل کیا جائے۔