سویڈن الیکشن میں دائیں بازو کے اپوزیشن کی فتح
15 ستمبر 2022سویڈن میں ہونے والے عام انتخابات کی گنتی تقریبا مکمل ہو گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دائیں بازو کے حزب اختلاف کے اتحاد نے پارلیمان میں کم ہی تعداد میں سہی، تاہم اکثریت حاصل کر لی ہے۔
ادھر سویڈن کی وزیر اعظم میگڈالینا اینڈرسن نے کہا کہ وہ بہت ہی جلد مستعفی ہو جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ابتدائی نتائج سے ہی نتیجہ اخذ کرنا کافی ہے اور یہ ضروری ہے کہ سویڈن کو جلد از جلد ایک نئی حکومت مل جائے۔
سویڈن اور فن لینڈ نیٹو معاہدے پر عمل نہیں کر رہے، ترکی
قوم پرست جماعت ’سویڈن ڈیموکریٹس‘ کے رہنما جمی اکیسن نے چار پارٹیوں پر مبنی بلاک کی فتح کا اعلان کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ ’’سویڈن کو پہلے نمبر پر رکھا جائے گا۔‘‘ قدر اعتدال پسند قدامت پرست رہنما الف کرسٹرسن ممکنہ طور پر وزارت عظمی کے عہدے کے سب قریبی امیدوار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت ’’سویڈن کا نظم و نسق درست کرے گی۔‘‘
کرسٹرسن نے کہا، ’’اب میں ایک نئی حکومت کی تشکیل کا کام شروع کروں گا جو کام کاج سنھبال سکے گی۔ ایک ایسی حکومت جو تمام سویڈن اور اس کے تمام شہریوں کے لیے ہو گی۔‘‘
تاہم ابھی تک انتخابی نتائج کی سرکاری سطح پر توثیق ہونا باقی ہے۔
کانٹے کا مقابلہ
جب تک گنتی میں پوسٹل اور بیرون ملک ووٹوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، اس وقت تک مقابلہ تقریبا برابری کا رہا اور یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کل کون جیتے گا۔ یہاں تک کہ اعتدال پسند، سویڈن ڈیموکریٹس، کرسچن ڈیموکریٹس اور لبرلز کو موجودہ حکمراں اتحاد سوشل ڈیموکریٹس پر محض دو سیٹوں کی ہی برتری حاصل ہے۔
سویڈن کو بھی کشمیر کی صورتحال پر تشویش
تمام 6,578 ووٹنگ والے اضلاع میں تقریبا 99.9 فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد، اگر نتائج کی تصدیق ہو جاتی ہے، تو دائیں بازو کی اپوزیشن کو 349 نشستوں والی پارلیمنٹ میں 176 سیٹیں ملی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق حکمراں سوشل ڈیموکریٹس اور اس کے اتحاد کو 173 نشستیں حاصل ہوں گی۔
انتہائی دائیں بازو کی جماعت حکومت کا حصہ
سویڈن ڈیموکریٹس ایک ایسی سیاسی جماعت ہے، جو امیگریشن کی سخت مخالف اور قوم پرستانہ بیان بازی پر انحصار کرتی ہے، تاہم کبھی بھی سویڈن حکومت کا حصہ نہیں رہی۔
اس پارٹی نے اس بار 20 فیصد سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں، جو سبکدوش ہونے والی وزیر اعظم میگڈالینا اینڈرسن کی سوشل ڈیموکریٹس کے بعد اب دوسری نمبر کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔
سویڈن ڈیموکریٹس اب اعتدال پسندوں کو بھی پیچھے چھوڑنے کے لیے تیار ہے کیونکہ اس جماعت نے اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے 19.1 فیصد کے مقابلے 20.6 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
سویڈن ڈیموکریٹس کی جڑیں نازی خیالات کی حامی ہیں، اسی لیے جب سن 2010 میں وہ پہلی بار منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچے تھے تو بیشتر بڑی پارٹیوں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ لیکن پھر سن 2019 کے اواخر میں اعتدال پسندوں نے کہا کہ وہ انتہائی دائیں بازو کی اس جماعت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
موجودہ وزیر اعظم اینڈرسن نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ بہت سے سویڈن اس بات سے پریشان ہیں کہ سفید فام بالادستی کی جڑیں رکھنے والی پارٹی ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر نئے حکمران اتحاد کا ممکنہ حصہ بن جائے گی۔
سویڈن: معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے والے مہاجر
ان کا کہنا تھا، ’’میں آپ کو تشویش میں مبتلا دیکھتی ہوں اور مجھے بھی اس پر تشویش ہے۔‘‘ سویڈن اعتدال پسند اور لبرل خیالات کے معروف ہے تاہم دائیں بازو کی جماعت 'سویڈن ڈیموکریٹس' امیگریشن کی سخت مخالف ہے۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)