سی پیک: ماضی میں بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا، عمران خان
30 مارچ 2019
عمران خان نے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ گوادر میں نئے بین الاقوامی ائیرپورٹ کا بھی سنگ بنیاد رکھا ہے۔ اس جدید ائیرپورٹ کی تعمیر پر چالیس ارب روپے سے زائد لاگت آئے گی۔ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کا ایک اہم ترین منصوبہ ہے جسے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی چین کی مدد سے تعمیر کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان بروز جمعہ ایک خصوصی دورے پر کوئٹہ پہنچے تھے۔ کوئٹہ میں انہوں نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت بھی کی جس میں فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت وفاقی وزراء بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں وزیراعظم کو سی پیک منصوبے اور امن و امان کی مجموعی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
سی پیک مغربی روٹ این پچاس کوئٹہ، ژوب ڈبل کیرج وے کے سنگ بنیاد کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے تسلیم کیا کہ سابقہ حکومت نے سی پیک منصوبے میں بلوچستان کو یکسر نظر انداز کیا۔
انہوں نے کہا، ’’سی پیک مغربی روٹ پر کام کا آغاز بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے یہاں حکمران ماضی میں ہمیشہ ذاتی مفادات کو عوامی مفاد پر ترجیح دیتے رہے ہیں۔ بلوچستان پاکستان کی ترقی کا محور ہے۔ یہاں ترقی نہیں ہو گی تو قومی ترقی کا خواب کس طرح شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ کوئٹہ سے ژوب تین سو پانچ کلومیٹر ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف بلوچستان کو پورے پاکستان سے ملائے گا بلکہ تمام پسماندہ علاقوں کو بھی اپس میں جوڑے گا۔‘‘
عمران خان نے کہا کہ ناقص حکمت عملی اور مفاد پرستی کی سیاست کی وجہ سے آج پاکستان کو معاشی طور پر کئی مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم صرف پرانے قرضوں پر اس وقت چھ ارب روپے سود ادا کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے بلوچستان سے زیادہ لندن کے دورے کیے۔ اگر عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ملک میں سیاست صرف انتخابات جیتنے کے لیے کی جاتی رہی ہے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکمرانی کے لیے نہیں، بلکہ ملک کی حالت درست کرنے کے لیے اقتدار میں آئی ہے۔‘‘
عمران خان نے اعلان کیا کہ ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تجارت اور آمد و رفت کو آسان بنانے کے لیے کوئٹہ سے تفتان تک ریلوے ٹریک بھی بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے دورہ کوئٹہ کے دوران ہیلتھ کمپلیکس کے ایک بڑے منصوبے کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ اس کمپلیکس کو جدید دور کے تمام تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے ۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی سکریٹری اطلاعات، نفیسہ شاہ نے وزیراعظم عمران خان کی آج کوئٹہ میں کی گئی تقریر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
نفیسہ شاہ نےکوئٹہ میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا، ’’پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت پوائنٹ اسکورنگ کے لیے سابقہ حکومتوں پر بلا وجہ الزامات عائد کر رہی ہے۔ آج وزیراعظم نے سی پیک کے جس مغربی روٹ کا افتتاح کیا ہے، یہ افتتاح پہلے بھی ہو چکا ہے۔ عمران خان کب تک عوام سے اپنی نااہلی چھپا سکیں گے۔ نااہل لوگوں نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ آپ دیکھیں اس وقت ملک کی اقتصادی حالت کس حد تک تباہی سے دوچار ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت نے ملک میں چار ضمنی بجٹ پیش کرکے عوام پر مہنگائی کا طوفان مسلط کر دیا ہے۔‘‘
نفیسہ شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی پیک کے حوالے سے موجودہ حکومت جو دعوے کر رہی ہے، ان کی حقیقت جلد کھل کر سامنے آ جائے گی۔
بلوچستان کے سیاسی امور کے تجزیہ کار ندیم احمد کہتے ہیں کہ الزام تراشی کی سیاست پاکستان میں کوئی نہیں بات نہیں لیکن عوام کو اب کھوکلے نعروں سے بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بلوچستان کے عوام ہمیشہ سے ان تحفظات کا اظہار کرتی رہے ہیں کہ یہاں حکومت ترقی کے بجائے صرف دعوے ہی کرتی رہی ہے۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے سی پیک کے حوالے سے ماضی میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا، عمران خان نے آج ان تمام خدشات کی تصدیق کردی۔ اگرمعاملات اسی طرح دعووں کی تک محدود رہے تو عوام کو سڑکوں پر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
ندیم احمد کا مزید کہنا تھا، ’’گوادر کی وجہ سے سی پیک کا محور بلوچستان ہونا چاہیے تھا، لیکن اس منصوبے کے تحت فنڈز اب تک سارے پنجاب میں ہی خرچ ہوتے رہے ہیں۔ ترقی کے اس عمل میں بلوچستان کو نظر انداز کرنا اس خطے میں مزید عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ میرے خیال میں اگر ریاست چاہتی تو صوبے کے وسائل اس قدر بے دریغ لوٹے جانے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو پاتی۔ اب بھی وقت ہے کہ یہاں پسماندگی کے خاتمے اور صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔ جو لوگ ہتھیار اٹھا کر حقوق مانگ رہے ہیں انہیں سنے بغیرکسی دعوے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔‘‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ملک عبدالولی کے بقول سی پیک منصوبے میں بلوچستان کے خدشات کو دور حکومتی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہم ہمیشہ سے یہی کہتے آ رہے ہیں کہ یہاں کے عوام کی حق حاکمیت کو اپنے وسائل پر تسلیم کیا جائے۔ حکومت ہمیشہ عوام کو فرضی دعووں سے ہی مطمئن کرنے کی کوششوں میں مصروف رہی ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے کے عوام کے ساتھ اگر انصاف کیا جاتا تو آج یہاں لوگ اس قدر بد حالی کا شکار نہ ہوتے۔ حقائق تسلیم کیے بغیر ریاست بلوچستان کی وجہ سے سامنے آنے والے معاملات میں کوئی بہتری نہیں لا سکتی۔‘‘
ملک ولی نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصبوبہ ایک گیم چینجر ضرور ہے لیکن اس گیم میں بلوچستان کو کیوں نذر انداز کیا گیا ہے۔ ملک ولی کے مطابق، ’’اربوں ڈالرز کے اس میگا منصوبے میں بلوچستان کو سب سے زیادہ حصہ ملنا چاہیے تھا لیکن اب تک جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں ان کے ذریعے پنجاب کو ہی نوازا گیا ہے۔ اوریج ٹرین منصوبے پر جس بڑے پیمانے پر رقم پنجاب میں ضائع گئی، اگر یہ رقم بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے پر خرچ کی جاتی تو آج یہاں حالت کچھ اور ہوتی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست بلوچستان میں ترقی کے عمل میں یہاں کی حقیقی قیادت کو بھی اعتماد میں لے اور سردار اختر جان مینگل نے جو نکات پیش کیے ہیں ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔‘‘
عمران خان نے گوادر میں دو روزہ ایکسپو کی اختتامی تقریب میں بھی شرکت کی۔ اس دوران انہیں ایکسپو کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے گوادر کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے اور گوادر کے عوام کے لیے ہیلتھ کارڈز جاری کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔