کیا پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست ختم ہوگئی؟
3 جنوری 2020پاکستان میں سوشل میڈیا پر صارفین اس بحث میں مصروف ہیں کہ ایسا کیا ہو گیا کہ ساری سیاسی جماعتیں اس بل کی حمایت پر راضی ہوگئیں؟
اس حمایت کے بعد پی پی پی اور نون لیگ کو عوامی تنقید کا سامنا بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر نون لیگ اور نواز شریف کے بیانیے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کئی ناقدین اسے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کی جگہ ''بوٹ کو عزت دو‘‘ لکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویرکا بہت چرچا ہے، جس میں ایک شخص کو زنجیر سے باندھا ہوا ہے اور وہ فوجی بوٹ چاٹ رہا ہے۔ ایک اور تصویر میں نواز شریف کے کان میں خواجہ آصف کچھ کہہ رہے ہیں اور نیچے کسی ناقد نے یہ لکھا ہے کہ خواجہ آصف، میاں صاحب سے پوچھ رہے ہیں کہ بوٹ کو صرف عزت ہی دینی ہے یا چاٹنا بھی ہے۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل، اپوزیشن کا غیر مشروط حمایت کا فیصلہ
فیصلہ ملک کو سیاہ دور میں لے جانے کی کوشش ہے، وزیر قانون
نون لیگ کے فیصلے سے ان کے کارکنان سخت اشتعال میں نظر آرہے ہیں اور کئی سوشل میڈیا پر یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ اب نون لیگ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ کئی حلقوں میں یہ بات بھی گرم ہے کہ نون لیگ نے کوئی سودے بازی کی ہے یا این آر او کر لیا ہے۔
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما اور معروف سیاست دان سینیٹرعثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی نے این آر او کر لیا ہے۔ ''جو سیاسی جماعتیں اس بل کی حمایت کر رہی ہیں، ان کی عوام میں ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔ ن لیگ اور پی پی پی نے اپنی کمزوریوں کی وجہ سے این آر او کر لیا ہے، جس کا انہیں سیاسی طور پر بہت نقصان ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ قومی دھارے کی جماعتوں میں اب کوئی اینٹی اسٹیبلشمٹ جماعت نہیں رہی اور اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کا دور ختم ہوگیا ہے۔ جو بہت مایوس کن ہے۔‘‘
عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس بل کی سینیٹ میں مخالفت کریں گے۔ ''ہم سجھتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ اصولی ہے اور عوام اس کو سراہیں گے۔ ہمارے فیصلے کی وجہ سے لوگوں کا قوم پرستانہ سیاست پر اعتماد بڑھے گا اور قوم پرستی کی سیاست کو مسقتبل میں فروغ ملے گا۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم عثمان کاکڑ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ن لیگ نے ڈیل کر لی ہے۔ ''یہ واضح ہے کہ ن لیگ نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر لی ہے۔ اور دونوں بھائی ڈیل کر کے ہی نکلے ہیں۔ ان کے ووٹرز اور سپورٹرز غصے میں ہیں کیونکہ یہ نواز شریف کے بیانیے کی نفی ہے۔ میرے خیال میں ن لیگ کو سیاسی طور پر بہت نقصان ہوگا اور اگلے انتخابات اس بات کی عکاسی بھی کریں گے۔‘‘
ن لیگ کسی دور میں اسٹیبلشمنٹ نواز پارٹی تھی۔ تاہم انیس سو ننانوے کی فوجی بغاوت کے بعد پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا۔ جو کئی ناقدین سجھتے ہیں اب ختم ہو گیا ہے۔ تاہم ن لیگ کے مرکزی رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ ''ہمارے لوگوں میں تشویش ہے اور اس تشویش کو قیادت دور کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے لیکن آرمی ایکٹ کی حمایت سے ہماری مقبولیت کم نہیں ہوگی کیونکہ ہم اب بھی نواز شریف کے بیانیے پر کھڑے ہیں۔ نواز شریف کی واضح ہدایات ہیں کہ پارلیمانی طریقے کی پیروی کی جائے اور اس مسئلے پر بحث کے لیے مناسب وقت دیا جائے۔ انہوں نے تو بحث اور دوسرے امور کے لیے پندرہ جنوری تک کا کہا ہے۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پی ٹی آئی نے پارلیمانی طریقہ کار کو نہیں اپنایا تو ن لیگ ووٹنگ میں حصہ نہیں لے گی۔ ''اگر انہوں نے بحث کا وقت نہیں دیا اور پارلیمانی طریقہ بلڈوز کیا اور یہ تاثر دیا کہ سب صرف دکھاوے کے لیے ہے تو ہم پھر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘
ن لیگ کی طرح پی پی پی بھی ایک اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت رہی ہے، جس نے ستر اور اسی کی دہائیوں میں فوج کے سخت کریک ڈاون کا بھی سامنا کیا۔ ملک کے کئی حلقوں میں پی پی پی کے رویے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کئی ناقدین آرمی ایکٹ کی حمایت کے پی پی پی کے فیصلے کو سیاسی خودکشی کہتے ہیں۔ خود پی پی پی کے کچھ رہنماؤں کو بھی اس کا ادراک ہے۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے پیداوار آیت اللہ درانی اس فیصلے کو پارٹی کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہیں۔ ''پارٹی کی سینٹرل کمیٹی نے تو ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن جو چیز میڈیا سے آرہی ہے وہ یہی ہے کہ پارٹی اس ایکٹ کی حمایت کرے گی، جس کے پارٹی کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ لوگ یہ سمجھیں گے کہ پی پی پی نے چند افراد کو بچانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے سودے بازی کر لی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ پی پی پی کے نظریے کی شکست کے مترادف ہے اور اس کے روایتی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی نفی ہے، جس سے پارٹی کے نظریاتی کارکنوں میں بہت مایوسی پھیلے گی۔
آرمی ایکٹ کے حوالے سے اب یہ بات واضح ہے کہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں اس کی حمایت کریں گی۔ تاہم کچھ سیاسی جماعتوں نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اس بل کی حمایت نہیں کریں گی۔ نیشنل پارٹی کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری پارٹی نے اصولی فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس بل کی مخالفت کریں گے اور ہم نے آج اس کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ میں دوسری سیاسی جماعتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ہم تو اس کی مخالفت کریں گے۔‘‘