سیاسی پناہ کے یورپی قوانین میں ترامیم کا منصوبہ
3 اپریل 2016ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والا معاہدہ نہ صرف انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے بلکہ یورپی یونین کے تمام ممالک بھی اس سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں۔ تاہم اب یورپی یونین میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے قوانین میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔
جرمنی آنا غلطی تھی، واپس کیسے جائیں؟ دو پاکستانیوں کی کہانی
یونان میں پھنسے پاکستانی وطن واپسی کے لیے بیقرار
’ڈبلن قوانین‘ کے نام سے جانے جانے والے موجودہ یورپی قوانین کے مطابق تارکین وطن صرف اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں جس ملک کے ذریعے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوئے۔ اس قانون کی وجہ سے یونین کی بیرونی سرحدوں پر واقع یونان اور اٹلی جیسے ممالک کو پناہ گزینوں کا سب سے زیادہ بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے۔
گزشتہ برس مہاجرین کی بہت بڑی تعداد میں یونان اور اٹلی آمد کے بعد جرمنی نے ’ڈبلن قوانین‘ کے برخلاف شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں جس کی وجہ سے اٹلی اور بالخصوص یونان پر تارکین وطن کا بوجھ کم ہوا تھا۔ لیکن یونین کی سطح پر پناہ گزینوں کی منتقلی کا کوئی مرکزی قانون بنانا ایک مشکل کام ہو گا۔ کئی یورپی ممالک ایسے ہیں جو تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ نہیں دینا چاہتے۔ ایسے ممالک یونین کی بیرونی سرحدوں پر واقع ممالک کے اظہار یکجہتی دکھانے سے یقیناﹰ ہچکچائیں گے۔
اب یورپی کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ سیاسی پناہ کا ایک نیا اور متفقہ یورپی قانون بنانے کے لیے تمام ممکنہ امکانات پر غور کیا جائے گا۔ جس کے بعد رواں برس کے آخر تک ایک حتمی قانون تیار کر لیا جائے گا۔
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس اورامُوپولوس کا کہنا تھا، ’’ڈبلن قواعد تیار کرتے ہوئے یکجہتی کا تصور ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا تھا جس میں مہاجرین کا بوجھ تمام رکن ممالک کو یکساں طور پر برداشت کرنا پڑے۔ (نئے قوانین میں) اس پہلو کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ پناہ گزینوں کی تقسیم کا موجودہ نظام یقینی طور پر مستحکم نہیں ہے۔‘‘
نئے قوانین کی فوری ضرورت اس لیے بھی درپیش ہے کیوں کہ یورپ اور ترکی کے مابین طے شدہ معاہدے کے مطابق یونان آنے والے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو تو واپس ترکی بھیج دیا جائے گا، لیکن ہر شامی مہاجر کے بدلے یونین ترک کیمپوں میں رہنے والے ایک شامی مہاجر کو یونین میں پناہ دے گی۔
یورپی یونین میں تارکین وطن کی تقسیم کے منصوبے پر عمل درآمد اب تک نہیں ہو پا رہا۔ اصولی طور پر اب تک لاکھوں تارکین وطن کو اٹلی اور یونان سے دیگر یورپی ممالک منتقل کر دیا جانا چاہیے تھا لیکن اب تک صرف گیارہ سو کے قریب لوگوں کو ہی منتقل کیا جا سکا ہے۔
یونین کے کچھ رکن ممالک زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ممالک سے آنے والے مسلمان تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ برسلز اور پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اس رجحان میں اضافہ بھی ہوا ہے۔