سیلاب زدگان کے لئے دنیا کا سب سے بڑا رہائشی منصوبہ
2 اکتوبر 2010تاداتیرو کنوئے کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ 25 ہزار سیلاب زدہ خاندانوں یعنی قریب دس لاکھ افراد کے لئے عارضی رہائش گاہیں تعمیر کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ رہائش گاہیں ایک ارب روپے کی لاگت سے چھ ماہ کے عرصے میں مختلف علاقوں میں تعمیر کی جائیں گی۔
تاداتیرو کنوئے نے کہا: ''ہمیں متاثرین کی فوری ضروریات کو پورا کرنا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ صرف ایک تنظیم تنہا یہ کام نہیں کر سکتی۔ اس کے لئے ہمیں مستقل اور مربوط کوششیں کرنا ہوں گی اور یقینی طور پر حکومت کو بھی اس سلسلے میں اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘
اس موقع پر صحافیوں کو ان عارضی رہائش گاہوں کے دو مختلف نمونے بھی دکھائے گئے۔ گارے، اینٹوں، جستی چادر، ترپال اور بانسوں سے بنی ایسی ایک عارضی رہائش گاہ کی تعمیر پر 300 سے لے کر 500 امریکی ڈالر تک لاگت آتی ہے اور یہ کم از کم بھی ایک سات رکنی خاندان کی رہائشی ضروریات پورا کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
پاکستان کی ہلال احمر سوسائٹی کی چیئرپرسن اور ملکی پارلیمان کے ایوان بالا کی رکن نیلوفر بختیار کے مطابق اس وقت بھی ہلال احمر سوسائٹی پاکستان کے مختلف علاقوں میں 21 لاکھ سیلاب زدگان کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ سرکاری اندازوں کے مطابق اب بھی آٹھ ملین یا 80 لاکھ متاثرین کے سروں پر کوئی چھت نہیں ہے اور تاحال صرف دس لاکھ افراد کو رہائش گاہیں مہیا کرنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے، تو سینیٹر بختیار نے کہا کہ فنڈز کی کمی کے سبب فی الحال یہی کچھ کیا جا سکتا ہے۔
نیلوفر بختیار نے کہا: ''سردی کے پیش نظر ہم متاثرین کو موسم سرما سے بچاؤ کے لئے تیار کئے گئے شیلٹر دینا چاہتے ہیں لیکن اس شیلٹر کی شکل پاکستان کے ہر صوبے میں مختلف ہوگی کیونکہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی ضروریات مختلف ہیں اور خیبر پختونخوا میں تو ان عارضی رہائش گاہوں کی شکل و صورت بالکل مختلف ہو گی۔‘‘
ہلال احمر سوسائٹی پاکستان کی سربراہ کے بقول: ’’ہم تمام صوبوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کریں گے۔ لیکن میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں آگے آئیں اور ہلال احمر جیسے اداروں سے مزید تعاون کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ متاثرین کو ریلیف پہنچایا جا سکے۔‘‘
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس نے پاکستانی متاثرین سیلاب کے لئے 56 ملین یورو امداد کی اپیل کر رکھی ہے، جس کا 73 فیصد حصہ اس ادارے کو موصول ہوچکا ہے۔ تاہم اس بین الاقوامی ادارے کا کہنا ہے کہ اسے 2012 تک سیلاب زدگان کی مسلسل دیکھ بھال کے لئے مزید مالی وسائل درکار ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں