سیلاب کے باعث لاپتہ بچوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد
7 اکتوبر 2010اس حوالے سے اسلام آباد میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) اور یونیسیف کے تعاون سے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر یونیسیف کے بچوں کی حفاظت یعنی چائلڈ پروٹیکشن کے ماہر نوح اوچالا نے بتایا کہ پاکستان میں سیلاب زدہ بچوں کی گمشدگی اور اپنے خاندانوں سے بچھڑنے کے متعدد واقعات مختلف وجوہات کی بناء پر ابھی تک رپورٹ نہیں ہو سکے۔
انہوں نے کہا :”امدادی اداروں نے گمشدہ بچوں کی کم تعداد کا اِندراج کیا ہے لیکن اس طرح کے اشارے ملے ہیں کہ یہ تعداد ایک ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔ یونیسیف کو اپنے ساتھ براہ راست کام کرنے والی ایجنسیوں کی جانب سے جو کیس رپورٹ ہوئے ہیں، ان کی تعداد پانچ سو ہے۔“
مسٹراوچالا کے مطابق ان بچوں کو مختلف قسم کے خطرات لاحق ہیں، جن میں غیر قانونی سمگلنگ، چائلڈ لیبر اور جنسی زیادتی جیسے خطرات سرفہرست ہیں۔
ادھر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں 146 بچوں کے اپنے خاندانوں سے بچھڑنے یا لاپتہ ہونے کے واقعات پیش آئے۔ ان میں سے 129بچوں کودوبارہ ان کے خاندانوں سے ملا دیا گیااور اب صرف سترہ بچے ایسے ہیں جن کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
گمشدہ بچوں کی اتنی کم تعداد کے اِندراج کے بارے میں ایک سوال پر این ڈی ایم اے کے بچوں سے متعلق سیل کی کوآرڈینیٹر عالیہ آغا نے اعتراف کیا کہ یہ اعداد و شمار مکمل نہیں۔انہوں نے کہا :
’’اس بارے میں ٹھوس معلومات اکٹھی نہیں ہو رہیں کیونکہ یہ ذمہ داری کسی ایک ادارے پر عائد نہیں ہوتی۔کچھ ادارے جو مقامی سطح پر امدادی کام کر رہےہیں، تو وہ اپنا ڈیٹاجمع کر رہے ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے کام کرنے والی ایجنسی تک کچھ معلومات پہنچا دیں اور کچھ نہیں پہنچا سکے۔
بدقسمتی سے یہ ایک ایسا نظام ہے جس کو ہم ابھی تک منظم یا فعال نہیں کر پائے ہیں۔‘‘
NDMA کےحکام کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک ایسا منصوبہ متعارف کرا رہے ہیں، جس کے تحت امدادی ادارے، ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مل کر ایسے بچوں کی تلاش ، بہبود اور بحالی کے لیے کام کریں گی۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں