سیلاب کے چھ ماہ بعد، مستقبل غیر یقینی
31 جنوری 2011اپنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی سکت نہ رکھنے والے یہ غریب اور حکومت سے شاکی دیہاتی سڑکوں کے کنارے خیموں میں مقیم یہ دعائیں کر رہے ہیں کہ اس سال جولائی میں آنے والا مون سون کا موسم ان کے لیے کوئی نئی مصیبت نہ لائے۔
ایسے ہی ایک خیمے میں مقیم علیمی سومرو اپنی دو ماہ کی پوتی کے پیر پر بندھے گندے پلاسٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، "ہمیں مشکل سے کوئی امداد مل رہی ہے۔ اگر مزید سیلاب آیا تو ہم کہاں جایئں گے۔ ہمارے پاس تو اتنا پیسہ بھی نہیں کہ یہاں سے بھاگ سکیں"۔
گزشتہ برس جولائی میں پاکستان میں آنے والے سیلاب سے تقریباﹰ 11 ملین افراد بے گھر ہوئے تھے۔ اس سیلاب کے بعد ملکی ا فوج نے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جبکہ حکومت اور سیاسی رہنماؤں کو اس مشکل گھڑی میں سست ردعمل ظاہر کرنے پر عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایسے میں اگر ملک میں ایک اور سیلاب آ جائے تو پہلے سے ہی سیلاب سے متاثر علاقوں کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
گو کہ پاکستان کو سیلاب زدگان کے لیے ایک بلین ڈالر سے زائد کی امداد دی جا چکی ہے تاہم سندھ کے بہت سے علاقے نہ صرف اب بھی سیلابی پانی میں گھرے ہوئے ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اس باعث بے گھر ہونے والے افراد عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے کیے جانے والے انٹریوز میں اکثر دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ اب تک صرف چند لوگوں کو ہی حکام کی جانب سے معاوضے کے طور پر وہ رقم ادا گئی ہے، جس کی مالیت 20 ہزار پاکستانی روپے یا 233.9 ڈالر بنتی ہے اور جو بے انتہا مہنگائی کے اس دور میں بہت کم ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ شاید برسوں بعد ہی وہ اس قابل ہوں کہ دوبارہ کاشتکاری کر سکیں۔ اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے زیادہ تر کسان اب محنت مزدوری کر رہے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے جلد داد رسی کی امید کم ہی ہے۔
دوسری جانب سیاسی کشمکش کی شکار پاکستانی حکومت اگر متاثرین سیلاب کی مدد کے لیے کو ئی قدم اٹھانا بھی چاہے تو اس کے لیے لاکھوں متاثرین سیلاب کے لیے فنڈز پیدا کرنا ایک مشکل امر ہو گا۔
ادھر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی ترجمان فوزیہ وہاب کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کی ہر ممکنہ مدد کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول اب کسانوں کو بلا معاوضہ کھاد اور بیج فراہم کیے جا رہے ہیں تاہم حکومت کو ابھی بھی ناکافی امدادی رقم کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: امجد علی