1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلاب کے چھ ماہ بعد، مستقبل غیر یقینی

31 جنوری 2011

پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے چھ ماہ بعد بھی پاکستان کے صوبہ سندھ میں کھیتی باڑی پر انحصار کرنے والا ایک گاؤں نہ صرف تباہ حال ہے بلکہ اس کے رہائشی اب بھی سڑکوں کے کنارےبے یقینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

https://p.dw.com/p/107zL
تصویر: AP

اپنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی سکت نہ رکھنے والے یہ غریب اور حکومت سے شاکی دیہاتی سڑکوں کے کنارے خیموں میں مقیم یہ دعائیں کر رہے ہیں کہ اس سال جولائی میں آنے والا مون سون کا موسم ان کے لیے کوئی نئی مصیبت نہ لائے۔

ایسے ہی ایک خیمے میں مقیم علیمی سومرو اپنی دو ماہ کی پوتی کے پیر پر بندھے گندے پلاسٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، "ہمیں مشکل سے کوئی امداد مل رہی ہے۔ اگر مزید سیلاب آیا تو ہم کہاں جایئں گے۔ ہمارے پاس تو اتنا پیسہ بھی نہیں کہ یہاں سے بھاگ سکیں"۔

Pakistan Überschwemmung Flutkatastrophe Flüchtlingslager bei Karachi
لاکھوں سیلاب متاثرین اب بھی عارضی کیمپوں میں مقیم ہیںتصویر: picture alliance/dpa

گزشتہ برس جولائی میں پاکستان میں آنے والے سیلاب سے تقریباﹰ 11 ملین افراد بے گھر ہوئے تھے۔ اس سیلاب کے بعد ملکی ا فوج نے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جبکہ حکومت اور سیاسی رہنماؤں کو اس مشکل گھڑی میں سست ردعمل ظاہر کرنے پر عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایسے میں اگر ملک میں ایک اور سیلاب آ جائے تو پہلے سے ہی سیلاب سے متاثر علاقوں کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

گو کہ پاکستان کو سیلاب زدگان کے لیے ایک بلین ڈالر سے زائد کی امداد دی جا چکی ہے تاہم سندھ کے بہت سے علاقے نہ صرف اب بھی سیلابی پانی میں گھرے ہوئے ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اس باعث بے گھر ہونے والے افراد عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔

Pakistan Überschwemmung Flutkatastrophe Hilfe für Flüchtlinge
ناکافی امداد کے باعث سیلاب متاثرین مستقبل کے لیے غیر یقینی کا شکار ہیںتصویر: AP

خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے کیے جانے والے انٹریوز میں اکثر دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ اب تک صرف چند لوگوں کو ہی حکام کی جانب سے معاوضے کے طور پر وہ رقم ادا گئی ہے، جس کی مالیت 20 ہزار پاکستانی روپے یا 233.9 ڈالر بنتی ہے اور جو بے انتہا مہنگائی کے اس دور میں بہت کم ہے۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ شاید برسوں بعد ہی وہ اس قابل ہوں کہ دوبارہ کاشتکاری کر سکیں۔ اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے زیادہ تر کسان اب محنت مزدوری کر رہے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے جلد داد رسی کی امید کم ہی ہے۔

دوسری جانب سیاسی کشمکش کی شکار پاکستانی حکومت اگر متاثرین سیلاب کی مدد کے لیے کو ئی قدم اٹھانا بھی چاہے تو اس کے لیے لاکھوں متاثرین سیلاب کے لیے فنڈز پیدا کرنا ایک مشکل امر ہو گا۔

ادھر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی ترجمان فوزیہ وہاب کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کی ہر ممکنہ مدد کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول اب کسانوں کو بلا معاوضہ کھاد اور بیج فراہم کیے جا رہے ہیں تاہم حکومت کو ابھی بھی ناکافی امدادی رقم کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں