سینکڑوں شامی باشندوں پر ریاست کو نقصان پہنچانے کا الزام
4 مئی 2011اس تنظیم کے مطابق یہ فردِ جرم منگل کے روز ان لوگوں پر لگائی گئی، جنہیں گزشتہ چند روز کے دوران گرفتار کیا گیا ہے، خاص طور پر جمعہ کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران گرفتار شدگان پر۔ آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رَمی عبدالرحمان کے مطابق: ’’شام بھر میں بڑے پیمانے پر جاری گرفتاریاں، انسانی حقوق اور بین الاقوامی کنونشنز کی خلاف ورزی ہیں۔‘‘
انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے مطابق گرفتار افراد پر بری طرح تشدد کیا گیا، جبکہ مظاہروں کے دوران خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ شام میں پہلے ہی ہزاروں سیاسی قیدی موجود ہیں۔
مارچ کے وسط سے جاری حکومت مخالف مظاہروں میں اس وقت سے شدت آگئی ہے جب صدر بشار الاسد کے بھائی ماہر الاسد کی سربراہی میں ایک فوجی یونٹ نے درعا میں کارروائی کی۔ اس یونٹ میں ایک فوجی ٹینک بھی شامل تھا۔
پیر کے روز شام کے حکام نے حکومت مخالف مظاہروں کے تناظر میں ’غیرقانونی کارروائیوں’ میں ملوث افراد کو گرفتاری پیش کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا تھا۔
وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا، 'ایسے شہری جو ہتھیار رکھنے، سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے اور جھوٹ پھیلانے جیسی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے، پندرہ مئی تک گرفتاری پیش کرتے ہوئے اپنے ہتھیار بھی متعلقہ حکام کے سامنے پیش کر دیں۔‘ اس اعلامیے میں شہریوں کو ایسے افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔ ایسا کرنے پر انہیں کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی سے استثنیٰ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف قریب چھ ہفتوں سے جاری احتجاجی مظاہروں میں اب تک 560 شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: ندیم گِل