سینکڑوں شامی فوجی ٹینکوں سمیت درعا میں داخل، 25 ہلاک
25 اپریل 2011خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کے روز سینکڑوں شامی فوجی جنوبی شہر درعا میں داخل ہو گئے، جہاں شدید فائرنگ کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ ان فوجیوں کو چھپ کر فائرنگ کرنے والوں کی مدد بھی حاصل ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جمہوریت کے حامی سیاسی کارکنوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ درعا میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
حریری کا مزید کہنا تھا، ’’بجلی کاٹ دی گئی ہے اور ٹیلیفون پر بات کرنا بھی تقریباﹰ ناممکن ہو چکا ہے۔‘‘
آج پیر کے روز شامی اپوزیشن کی طرف سے سیٹیلائٹ کے ذریعے ایک فوٹیج بھی جاری کی گئی ہے، جس میں ملکی فوجیوں کو نامعلوم اہداف کی طرف فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین تصادم کا سلسلہ اس علامیے کے بعد شروع ہوا ہے، جس میں ملک بھر کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے 102 دانشوروں نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی پر زور مذمت کی ہے۔ اس علامیے میں کہا گیا ہے، ’’ہم مظاہرین کے خلاف شامی حکومت کے ظالمانہ طرز عمل اور پرتشدد کارراوئیوں کی مذمت کرتے ہیں اور شہید ہونے والوں کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘
خبر ایجنسی اے پی کے مطابق دمشق کے مضافاتی علاقے دوما میں بھی شامی سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی ہے۔ ایک عینی شاہد کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس فائرنگ کے نتیجے میں کئی سویلین زخمی ہو گئے ہیں۔
شام میں پانچ ہفتے قبل صدر بشارالاسد کے خلاف شروع ہونے والی عوامی تحریک کے دوران اب تک درعا اور دوما کے علاقے ہی بھرپور مظاہروں کے مرکز بنے ہوئے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق شام میں 15 مارچ کو حکومت مخالف اس تحریک کے آغاز سے لے کر اب تک 352 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ شام میں انسانی حقوق کی تنظیم ’انسان‘ کے ڈائریکٹر وسیم تعارف کے مطابق گزشتہ جمعے کے روز سے 221 افراد لاپتہ بھی ہیں۔
گزشتہ روز اتوار کو شام میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف اپنی کارروائی کو وسعت دیتے ہوئے سکیورٹی فورسز نے جبلہ شہر میں کم از کم نو افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے علاوہ درجنوں کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔ ہفتہ کی شب صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں ایک بڑے مظاہرے کے بعد اسی ساحلی شہر میں پولیس اور فوجی دستے بھی تعینات کر دیے گئے تھے۔ دوسری جانب اردن کے وزیر اطلاعات طاہر ادوان کا کہنا ہے کہ شام نے اردن کے ساتھ اپنی سرحد کو بند کر دیا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک