شادی کی تقریبات: مختلف رسوم اور ان کے پس منظر
20 جنوری 2011لیکن سوال یہ ہے کہ ان رسومات کا آغاز کیسے ہوا؟ شادی سے متعلق اکثر روایات کی ابتداء صدیوں پرانی ہے۔ ان میں سے چند ایک کی اپنی ایک خاص معنویت بھی ہے۔ مثلاﹰ کسی شادی کی تقریب میں شریک جو لڑکی دلہن کے پھینکے ہوئےگلدستے کو ہوا ہی میں پکڑ لیتی ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگلی شادی اسی کی ہو گی۔
جرمن دارالحکومت برلن میں شادی کی تقریبات کی پیشہ ورانہ منصوبہ بندی کرنے والی ایک خاتون الیکساندرا ڈئیونیسیو کہتی ہیں کہ آج اس بات کا کس کو علم ہو گا کہ کلیسا میں شادی کے وقت پادری کے سامنے کھڑے ہوئے دلہن ہمیشہ دلہا کے ساتھ لیکن ایک مخصوص جگہ پر ہی کیوں کھڑی ہوتی ہے؟
الیکساندرا ڈئیونیسیو کہتی ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں جب مرد اپنے پاس ہمیشہ ایک تلوار بھی رکھتے تھے، تو دلہن شادی کے وقت ایک خاص جگہ پر اس لیے کھڑی ہوتی تھی کہ علامتی طور پر یہ بھی ظاہر ہو کہ دولہا اپنی تلوار کےساتھ اپنی دلہن کا ہر وقت دفاع کر سکتا ہے۔
الیکساندرا کہتی ہیں کہ آج کے دولہا جنگجو تو نہیں ہوتے اور وہ اپنے ساتھ تلواریں بھی نہیں لیے ہوئے ہوتے تاہم پھر بھی کلیسائی شادی کے وقت دلہن کے دلہا کے برابر کھڑے ہونے کی جگہ میں صدیوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
برلن کی میرج پلانر الیکساندرا ڈئیونیسیو کہتی ہیں کہ کئی ملکوں میں یہ بھی ایک بڑی پرانی عوامی کہاوت ہے کہ دلہا اگر شادی سے پہلے دلہن کو لباس عروسی میں دیکھ لے تو شادی کی تقریب سے پہلے ہی اس کو کسی نہ کسی بدقسمتی یا ناخوشگوار واقعے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کلیساؤں میں شادی کے وقت دلہن کو وہاں لانے والا اکثر اس کا والد ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ صدیوں پہلے لڑکی کو خاندان کی ملکیت سمجھا جاتا تھا اور اس لیے شادی کے وقت یہ ملکیت لڑکی کے خاندان سے دولہا کو منتقل ہو جاتی تھی۔ آج تاہم یہ روایت اس بات کی علامت ہے کہ دلہن کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ جذباتی اور خاندانی رشتے کتنے مضبوط ہیں۔
شادی کی تقریب میں جب دلہن یا مہمانوں کی طرف سے ہوا میں چاول پھینکے جاتے ہیں یا پھول پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں، تو اس رسم کا مطلب یہ دعا اور خواہش ہوتی ہے کہ اس نو بیاہتا جوڑے کو کافی زیادہ اولاد نصیب ہو اور وہ ایک خاندان کے طور پر مسلسل پھلتا پھولتا رہے۔
شادی کے موضوع پر ایک کتاب کی مصنفہ برگٹ ایڈم کہتی ہیں کہ شادی کے موقع پر پھولوں کو خوش قسمتی اور مستقبل میں اولاد کی پیدائش کی دعا کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شادی کے وقت جب میاں بیوی مل کر کیک کاٹتے ہیں، تو اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر پایا جانے والا ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ مل کر چھری پکڑتے ہوئے دلہا اور دلہن میں سے جس کا ہاتھ اوپر ہو گا، وہی مستقبل کے مشترکہ رشتے میں زیادہ فیصلہ کن اور قائدانہ کردار کا حامل ہو گا۔
چند مغربی ملکوں میں یہ دلچسپ روایت بھی ہے کہ دلہن اپنے دائیں جوتے میں ایک پینس یا سینٹ کا سکہ اس لیے رکھ لیتی ہے کہ شادی کے بعد ساری عمر اس جوڑے کو خوشی اور خوشحالی میسر ہو۔ شادی کے موضوع پر کتاب کی مصنفہ برگٹ ایڈم کہتی ہیں کہ اکثر شادیوں کے موقع پر رسم و رواج کو بہت اہمیت دی جاتی ہے لیکن انہیں ضرورت سے زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔ برگٹ ایڈم کے بقول، ’’شادی بہرحال شادی ہوتی ہے اور کوئی ایسی دوپہر یا شام نہیں جہاں سارے لوگ مل کر درجنوں کھیل کھیلتے رہیں۔‘‘
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک