شادی کی رسومات میں ’بے حیائی‘ کی حوصلہ شکنی
15 اکتوبر 2015جمہوریہ چیچنیہ کے حکام کے لیے شادی کی تقریب باوقار اور مناسب اُسی صورت میں ہو سکتی ہے، جب اُس میں بندوق کی فائرنگ نہ ہو، ڈانس فلور پر مرد اور خواتین ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوں اور دُلہن کو کیک کاٹنے نہ دیا جائے۔
یہ وہ سفارشات ہیں جو گزشتہ ماہ چچنیہ کے دارالحکومت گروزنی کے ثقافتی امور کے دفتر کی طرف سے پیش کی گئیں۔ وجہ یہی کہی گئی کے یہ اقدام نوجوانوں کی ’اخلاقی تربیت‘ کے لیے ضروری ہیں تاہم حکام کو اس ضمن میں قانونی اختیار حاصل نہیں ہے۔ ان سفارشات کو تب بھی اہمیت اس لیے حاصل ہے کے جمہوریہ چچنیہ کے سربراہ اور سابق صدر کے صاحبزادے رمضان قدیروف بہت تیزی سے اپنے معاشرے کو قدامت پسند اسلامی روایات کی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چچنیہ میں گزشتہ چند سالوں کے دوران نوجوان نسل تیزی سے لبرل یا آزاد خیال ہوتی دکھائی دی ہے۔ خاص طور سے اپنی شادیوں کے ضمن میں، ’’چچنیہ کے نوجوانوں نے قدامت پسند روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے جدید طریقہ زندگی اپنانا شروع کر دیا ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے گروزنی کے ثقافتی دفتر کے ایک اہلکار کا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’میں غیر اخلاقی رویہ نہیں دیکھنا چاہتا، میں ایک ڈریس کوُڈ دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
چیچنیہ میں رستورانوں اور شادی ہال کے منتظمین کو نئے ضوابط کو نافذ کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ وہ اپنے ہاں شادی کی تقاریب کا انتظام کروانے والے شہریوں سے تقریب سے پہلے ہی اس بارے میں بات چیت کر لیا کریں گے کہ شادی کی تقریب میں کس طرح کی رسوم شامل ہوں گی اور میزبان اور مہمانوں کا رویہ کیسا ہوگا۔ اگر شادی کی تقریب کے دوران ڈانس فلور پر مہمانوں نے کوئی ’ناشائستہ حرکت‘ کی یا تہذیب و وقار کا پاس نہ رکھا تو شادی ہال یا گارڈن کے منتظمین اُس وقت تک موسیقی بند رکھیں گے جب تک ڈانس فلور پر ہر کوئی باوقار انداز اختیار نہیں کرے گا۔ یہ کہنا تھا ایک مقامی ’ویڈنگ پلاننگ ایجنسی‘ کے مالک زبیر بیراکوف کا۔
دراصل قفقازی ثقافت میں روایتی طور پر شادی کے فریقین کے تمام لوگ بندوق سے فائر کر کے شادی کی تقریب کا اہتمام کیا کرتے ہیں۔ تاہم اب اسے معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ خاص طور پر روسی دارالحکومت میں جیسے جیسے قفقازی باشندوں کی آمد بڑھتی گئی ویسے ویسے زیادہ سے زیادہ اس قسم کی رسموں کے خلاف مقامی باشندوں میں ناگواری کا احساس بڑھتا گیا اور اب دور حاضر میں شادی کے موقع پر فائرنگ کے رواج کو فرسودہ سمجھا جانے لگا۔
چیچن شادیوں میں روایتی طور پر دولہا کی طرف سے رقم ادا کی جاتی ہے اور دولہا کے خاندان والے ہی اس میں شرکت کرتے ہیں۔ دولہے کے دوست اور خاندان کے اراکین دُلہن کے والدین کے گھر سے دلہن کو لے کر تقریب میں ایک خاص طے شُدہ جگہ پر اُسے بٹھا دیتے ہیں اور اُسے رقص یا دیگر تقریبات میں حصہ نہیں لینے دیا جاتا۔ روایت کے مطابق، دولہن اور دولہا کی ملاقات تقریب ختم ہونے کے بعد ہوتی ہے۔