ٹرمپ کا شام سے فوجی انخلاء کا فیصلہ، امریکا بھر میں مخالفت
20 دسمبر 2018واشنگٹن میں اس وقت صدر ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ کی جنگ زدہ ریاست شام سے امریکی فوجی انخلاء کے اپنے فیصلے پر ہر طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کی مشکل یہ ہے کہ یہ تنقید خود ان کی اپنی ریپبلکن پارٹی کے بہت سے سرکردہ رہنماؤں کی طرف سے بھی کی جا رہی ہے۔
ایسے میں خوشی کا اظہار صرف روس کی طرف سے کیا جا رہا ہے، جو شامی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی بھرپور عسکری اور سیاسی مدد کی وجہ سے ایک بڑا فریق بن چکا ہے۔
’امریکی سلامتی کے لیے تباہ کن نتائج‘
ریپبلکن پارٹی کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے وہاں تعینات امریکی فوجی دستے واپس بلا لینے کے فیصلے پر زبردست تنقید کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ صدارتی فیصلہ نہ صرف ناقابل فہم ہے بلکہ ایک ایسا غلط قدم بھی ہے، جس کے امریکی سلامتی کے لیے ’تباہ کن‘ نتائج نکلیں گے۔
ٹرمپ کے اس فیصلے سے بھرپور اختلاف کرنے والوں میں امریکی کانگریس کے بیسیوں ارکان میں خود ریپبلکن سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے اراکین بھی شامل ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یہ یکدم اعلان کل بدھ انیس دسمبر کو کیا تھا کہ شام میں چند برس پہلے اپنی نام نہاد خلافت کا اعلان کرنے والی دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو حتمی عسکری شکست دے دی گئی ہے۔ اس لیے واشنگٹن نے شام سے اپنے فوجی دستوں کی واپسی کا عمل شروع بھی کر دیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یہ فوجی انخلاء ممکنہ طور پر 60 سے لے کر 100 دنوں تک مکمل ہو جائے گا۔
’ہم داعش کے خلاف جیت گئے ہیں‘
اس بارے میں صدر ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’ہم نے شام میں داعش کو شکست دے دی ہے۔ یہی وہ واحد وجہ تھی کہ ٹرمپ صدارتی دور میں امریکی دستے وہاں بھیجے گئے تھے۔‘‘ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی بارے میں ٹوئٹر پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں مزید کہا، ’’ہم آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) کے خلاف جیت گئے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے فوجی، جو ہیرو ہیں، واپس وطن لوٹ آئیں۔‘‘
’امریکا کی خوفناک غلطی‘
ٹرمپ کے اس موقف کے برعکس ریاست جنوبی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے سرکردہ ریپبلکن سینیٹر لِنڈسے گراہیم نے، جو دراصل اپنے اس بیان سے پہلے تک ڈونلڈ ٹرمپ کا دفاع کرنے والے سرکردہ ترین ارکان کانگریس میں شمار ہوتے تھے، کہا کہ داعش کو ابھی تک شکست نہیں دی جا سکی۔ انہوں نے کہا، ’’شام سے امریکی فوجی انخلاء امریکا کی بہت بڑی غلطی ہو گا، جس سے داعش کو مدد ملے گی کہ وہ دوبارہ خطے میں اپنے قدم جمانے کی کوششیں کرے۔‘‘
اسی طرح ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن سینیٹر مارکو رُوبیو نے ٹرمپ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ایک ایسی ’خوفناک غلطی‘ ہو گا، جو اپنے نتائج کے حوالے سے اگلے کئی برسوں تک امریکا کا پیچھا کرتی رہے گی۔
’جلد بازی میں کیا گیا اقدام‘
ریاست کولوراڈو سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن پارٹی ہی کے سینیٹر کوری گارڈنر نے تو صدر ٹرمپ سے یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ وہ فوری طور پر اپنا یہ فیصلہ منسوخ کریں۔ امریکی ایوان نمائندگان میں بھی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کی بہت بڑی تعداد اس سلسلے میں ٹرمپ کے فیصلے پر شدید تنقید کر رہی ہے۔
دوسری طرف ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی سرکردہ ترین خاتون اراکین میں سے ایک نینسی پیلوسی نے بھی کہا ہے کہ ٹرمپ کا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف فتح اور شام سے امریکی فوجی دستے واپس بلانے کا اعلان ’قبل از وقت اور بہت جلد بازی‘ میں اٹھایا گیا قدم ہے۔
’اکیلے ہی کیا گیا ایک اور فیصلہ‘
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق یہ متنازعہ بن جانے والا فیصلہ صدر ٹرمپ کا ’بالکل اکیلے ہی کیا گیا ایک اور فیصلہ‘ ہے۔ سی این این کا کہنا ہے کہ اپنے اس فیصلے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ملکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع جیمز میٹس تک کو شامل نہیں کیا تھا۔
اخبار نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع کے اعلیٰ ترین نمائندوں نے عین آخری لمحے تک صدر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ یہ اعلان نہ کریں لیکن پینٹاگون کی یہ سرکردہ شخصیات بھی اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
شام میں امریکا کے اس وقت قریب دو ہزار فوجی تعینات ہیں، جو سرکاری طور پر شامی اپوزیشن گروپوں کی عسکری تربیت اور مشاورت کا کام کرتے ہیں۔ واشنگٹن نے شام میں اپنے لیے یہ کردار اس لیے بھی منتخب کیا تھا کہ امریکا ایک ایسے بین الاقوامی اتحاد میں بھی سب سے آگے ہے، جس کا مقصد شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو شکست دینا ہے۔
م م / ع ا / ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی