شام لبنان کشیدگی: شاہ عبداللہ، بشار الاسد بیروت میں
30 جولائی 2010سن 2005 میں سابق لبنانی وزیر اعظم رفیق الحریری کے قتل کے تناظر میں دمشق اور بیروت کے مابین اس نئی کشیدگی کی وجہ یہ ہے کہ دی ہیگ کی ایک عدالت میں مستقبل قریب میں حریری کے قتل کے سلسلے میں مبینہ طور پر ایران نواز شیعہ تنظیم حزب اللہ کے چند ارکان پر فرد جرم عائد کر دی جائے گی۔
اس بارے میں گزشتہ ہفتے حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصراللہ نے یہ کہا تھا کہ موجودہ لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے انہیں ذاتی طور پر ٹیلی فون پر بتایا کہ پانچ سال قبل ان کے والد رفیق الحریری کے قتل کی تحقیقات کے بعد ستمبر میں حزب اللہ کے چند ارکان پر فرد جرم عائد کردی جائے گی۔
یہ پیش رفت ایک نئی کشیدگی کا سبب بنی اور شامی صدر بشار الاسد نے 2005 کے بعد پہلی مرتبہ لبنان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے لئے جمعے کو سعودی عرب کے شاہ عبداللہ خاص طور پر دمشق سے شامی صدر کے ساتھ لبنانی دارالحکومت بیروت پہنچے۔ مقصد یہ تھا کہ اس وجہ سے شام اور لبنان کے مابین نئی کشیدگی کو ختم کیا جا سکے، ایک ایسی سربراہی مشاورت کے ذریعے، جو بہت کم دیکھنے میں آتی ہے، یعنی سعودی عرب، شام اور لبنان کے سربراہان بیروت میں ایک میز پر۔
شامی اور سعودی سربراہان کا بیروت پہنچنے پر لبنانی صدر مشیل سلیمان اور وزیر اعظم سعد الحریری نے ذاتی طور پر استقبال کیا۔ یہی دو مہمان شخصیات اس لئے اس کشیدگی کے خاتمے کے لئے سب سے زیادہ مناسب ہیں کہ شام حزب اللہ کی مدد کرتا ہے اور بشار الاسد شام کے صدر ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی بادشاہ عبداللہ کے لبنان میں حریری خاندان کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں اور ان کی بات بڑے احترام سے سنی جاتی ہے۔
کیا ان حالات میں بشار الاسد اور شاہ عبداللہ بیروت میں لبنانی قیادت کے ساتھ مشاورت میں شامی لبنانی کشیدگی کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ اس بارے میں ڈوئچے ویلے کی عربی زبان میں نشریات کے شعبے کے ایڈیٹر اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بہت قریبی نگاہ رکھنے والے ماہر احمد حِسُو کہتے ہیں: ’’ہاں، جب یہ دونوں رہنما اکٹھے بیروت گئے ہیں اور وہ بھی ایسے وقت پر، جب حزب اللہ اور حریری کے مابین تناؤ بہت زیادہ ہے، یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘‘
لیکن بیروت میں ان رہنماؤں کی مشترکہ کوشش کیا ہے؟ احمد حِسُو کہتے ہیں: ’’میری رائے میں وہ ایک مصالحتی حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ حزب اللہ اس بات کے خلاف ہے کہ ایک پارٹی کی حیثیت سے اس پر یا اس کے ارکان پر کوئی الزام لگایا جائے۔ شام پر براہ راست کوئی الزام نہیں ہے۔ یہ دونوں رہنما اس لئے بیروت گئے ہیں کہ لبنان میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔‘‘
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: افسر اعوان