شام میں امریکی فوجی چوکیوں کا انکشاف ’پرخطر اقدام‘، پینٹاگون
20 جولائی 2017امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعرات بیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ ترکی کی ایک سرکاری نیوز ایجنسی نے ابھی حال ہی میں خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں بظاہر امریکی فوجی چوکیوں کے مقامات کا جو انکشاف کر دیا تھا، اس نے مشرق وسطیٰ کے اس بحران زدہ ملک میں امریکی دستوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
امریکی عسکری اتحاد کے حملے، ایک ماہ میں 472 شامی شہری ہلاک
شام پر دوبارہ میزائل حملے کیے جا سکتے ہیں، امریکا
شام پر امریکی میزائل حملے، عالمی ردعمل میں تعریف بھی تنقید بھی
روئٹرز کے مطابق ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو نے منگل اٹھارہ جولائی کے روز شمالی شام میں دس ایسے مقامات کی فہرست جاری کر دی تھی، جہاں امریکی فوجی تعینات ہیں۔ ان میں سے چند مقامات کے بارے میں تو اس ترک نیوز ایجنسی نے یہ تفصیلات بھی جاری کر دی تھیں کہ وہاں تعینات امریکی اور فرانسیسی فوجیوں کی تعداد کتنی ہے۔
اس بارے میں واشنگٹن میں پینٹاگون کے ایک ترجمان نے بدھ انیس جولائی کی رات کہا، ’’داعش یا آئی ایس کے خلاف بین الاقوامی عسکری اتحاد کے دستوں کے بارے میں حساس معلومات کا اس طرح جاری کیا نہ صرف ایک غیر ضروری خطرے کی وجہ بنا ہے بلکہ اس سے ممکنہ طور پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف عسکری کارروائیوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
پینٹاگون کے ترجمان نے مزید کہا، ‘‘ہم ان معلومات کے ذرائع کی انفرادی طور پر تصدیق تو نہیں کر سکتے لیکن ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ نیٹو میں ہمارے کسی قریبی اتحادی ملک کے حکام کی طرف سے دانستہ طور پر حساس معلومات کے اجراء کے ساتھ اتحادی فوجوں کو خطرے میں ڈال دیا جائے۔‘‘
پینٹاگون کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان معلومات کے منظر عام پر لائے جانے کے بعد امریکا نے ترک حکومت سے باقاعدہ احتجاج کرتے ہوئے اسے اپنی تشویش سے آگاہ بھی کر دیا ہے۔
نیٹو کے رکن دو قریبی اتحادی ملک ہونے کے باوجود شام کی خانہ جنگی کے باعث ترکی اور امریکا کے باہمی تعلقات میں گزشتہ کچھ عرصے میں کافی بے چینی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے شامی شہر رقہ سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جہادیوں کو نکالنے کی کوششوں کے دوران کرد عسکریت پسندوں کی تنظیم وائی پی جی کے جنگجوؤں کو مسلح کیا اور انہیں تربیت بھی دی اور اس پر انقرہ حکومت اس لیے ناراض ہو گئی تھی کہ ترکی ان باغیوں کو اپنا ریاستی دشمن قرار دیتا ہے۔
یہ کرد باغی 1980 کے عشرے سے جنوب مشرقی ترکی میں اپنی مسلح بغاوت جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ اپنی ایک ایسی علیحدہ کرد ریاست کے قیام کے خواہش مند ہیں، جس میں ان کی خواہشات کے مطابق ترکی کے موجودہ ریاستی علاقے کا ایک حصہ بھی شامل ہونا چاہیے۔