شام میں کارروائی کا معاملہ فی الحال مؤخر
13 اپریل 2018خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس سے گزشتہ روز ٹرمپ کی کابینہ اور پینٹاگون کے اعلیٰ اہلکاروں کے روانہ ہونے کے چند منٹ بعد ہی وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری سارہ سینڈرز نے اعلان کیا کہ ٹرمپ شام کے معاملے پر انٹیلیجنس معلومات کا جائزہ لینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور اس حوالے سے اتحادی ممالک سے مشاورت کریں گے۔
سارہ سینڈرز نے صحافیوں کو بتایا، ’’کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘‘ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ ٹرمپ فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں اور برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے سے بھی بات کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے بعد ازاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ٹرمپ اور ٹریزا مے نے ’’شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں ایک مشترکہ رد عمل کے معاملے پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔‘‘ دوسری طرف برطانوی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ’’دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے معاملے پر ردعمل ضروری ہے اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اسد حکومت کو دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے باز رکھا جائے۔‘‘
دوسری طرف فرانسیسی جنگی بحری جہاز کے علاوہ برطانیہ کی کروز میزائلوں سے لیس آبدوزیں اور امریکی جنگی بحری جہاز ’یو ایس ایس ڈونلڈ کُک‘ سب ہی شام کے قریبی سمندر میں پہنچ چکے ہیں۔
مغربی حکام کا خیال ہے کہ باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی غوطہ کے شہر دوما میں ہونے والے کیمیائی حملے میں کلورین گیس کا استعمال کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت کے اندازوں کے مطابق اس حملے میں 75 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس حملے کی ذمہ دار اسد حکومت ہے۔ تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس حملے میں سارین گیس یا اس سے ملتا جُلتا کوئی کیمیائی مادہ بھی استعمال کیا گیا یا نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام میں کیمیائی حملے کے جواب میں شامی حکومت کے خلاف جلد کارروائی کرنے کا کئی بار ذکر کر چکے ہیں تاہم فی الحال اس پر جلد عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ دمشق حکومت کی درخواست پر اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں پر کنٹرول کے ادارے OPCW کے ماہرین کل ہفتہ 14 اپریل کو متوقع طور پر اس معاملے کی چھان بین کے لیے شام پہنچ رہے ہیں۔
اُدھر اقوام متحدہ میں روسی سفیر نے متننبہ کیا ہے کہ شام پر امریکی سربراہی میں ہونے والے حملوں کو روکنا روس کی ترجیح ہے۔ واسیلی نیبنزیا نے سلامتی کونسل کی بند دروازے کے پیچھے ہونے والی ملاقات کے بعد اس خطرے کو خارج از امکان قرار دینے سے انکار کر دیا کہ امریکا اور روس کے درمیان براہ راست تصادم بھی ہو سکتا ہے۔