شام پر دباؤ کا سلسلہ برقرار رکھیں گے، یورپی یونین
4 ستمبر 2011یورپی یونین کی جانب سے شام سے تیل کی برآمدات پر پابندیاں نافذ ہو چکی ہیں، جس کے بعد پولینڈ کے شہر زوپوٹ میں ہفتہ کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر بڑی یورپی طاقتوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ شام میں تشدد کے خاتمے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور کیتھرین ایشٹن سے جب یہ پوچھا گیا کہ یورپی وزراء دو روزہ اجلاس کے بعد شام پر مزید پابندیوں پر متفق ہوئے یا نہیں تو انہوں نے کہا: ’’ہم دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور ایسا کرنے کے طریقوں پر غور کریں گے۔‘‘
انہوں نے اس حوالے سے کسی طرح کے نئے اقدامات کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یورپی یونین شام پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے اپنی معاشی طاقت استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایشٹن نے مزید کہا: ’’میں صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ بات چیت کا عمل جاری ہے۔‘‘
دوسری جانب روس نے یورپی یونین کی جانب سے شام سے تیل کی درآمدات پر عائد کی گئی پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ روسی وزیر خارجہ سیرگیے لاوروف نے کہا کہ یکطرفہ تعزیری اقدامات سے مسائل کم ہی حل ہوتے ہیں۔
روس کے اس ردِ عمل کے بارے میں کیتھرین ایشٹن کہتی ہیں: ’’یہ پابندیاں یورپ کا جواب ہیں کہ ہم شام میں بدترین تشدد کے خاتمے کے لیے بہتر سے بہتر کیا کوشش کر سکتے ہیں۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف بدستور جاری سکیورٹی کریک ڈاؤن کے تناظر میں جرمنی اور فرانس نے یورپی یونین کی جانب سے مزید پابندیوں کے مؤقف کی تائید کی ہے۔
دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اس مؤقف کا اظہار زوپوٹ میں اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کے بعد کیا۔ فرانس کے وزیر خارجہ الاں ژوپے اور ان کے جرمن ہم منصب گیڈو ویسٹر ویلے نے سلامتی کونسل میں ایک قرارداد کے ذریعے شام کی مذمت کے لیے کوششیں کرنے اور شام کی اپوزیشن کے ساتھ تعاون کرنے کی بھی وکالت کی۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی