شام کے خلاف خفیہ ایٹمی سرگرمیوں کے الزامات
15 جولائی 2011IAEA کے بورڈ آف گورنرز نے جون میں اس حق میں ووٹ دیے تھے کہ سلامتی کونسل کو شام کی ایٹمی سرگرمیوں سے آگاہ کیا جائے گا۔ اس اقدام کی وجہ یہ تھی کہ شام نے اقوام متحدہ کے ایٹمی توانائی کے اِس ادارے کو اُس دیر الزور کمپلیکس کے معائنے سے روک دیا تھا، جس پراسرائیل نے 2007ء میں بمباری کی تھی۔
پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں شام کی ایٹمی سرگرمیوں کے موضوع پر جمعرات کا یہ اجلاس بند کمرے میں ہوا۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں آئی اے ای اے کے شام اور ایران کے معاملات کے نگران شعبے کے سربراہ نیول وائٹنگ نے یہ واضح کیا کہ شام کے پاس ایک خفیہ جوہری پلانٹ ہے۔ ان ممالک کے مطابق سلامتی کونسل کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ممکن ہے، ستمبر سے پہلے یہ معاملہ سلامتی کونسل میں زیر بحث نہ آ سکے۔
روس اور چین نے، جنہیں دمشق حکومت کا حلیف تصور کیا جاتا ہے، یہ استفسار کیا کہ آیا کونسل کو اس معاملے میں ملوث ہونا بھی چاہیے اور وہ بھی ایسے حالات میں جبکہ یہ شامی کمپلیکس اب وجود ہی نہیں رکھتا۔
امریکی انٹیلیجنس رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں کی جانب سے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیے جانے سے پہلے یہ کمپلیکس شمالی کوریا کا ڈیزائن کردہ ایک ری ایکٹر بننے جا رہا تھا، جس کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے لیے پلوٹونیم پیدا کرنا تھا۔ شام کا موقف یہ رہا ہے کہ یہ سرے سے کوئی ایٹمی مرکز تھا ہی نہیں۔
برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ وائٹنگ نے تباہ کن بریفنگ دی، جس سے ایک ہی نتیجہ نکلتا تھا کہ دیر الزور کے مقام پر شام کا ایک خفیہ جوہری پلانٹ تھا، جس کے اصل مقصد کو دمشق حکومت نے چھپانے کی کوشش کی، IAEA کو گمراہ کیا اور اس بین الاقوامی ادارے کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں اُس کے ساتھ تعاون کرنے میں ناکام رہا۔
برطانوی سفیر لائل گرانٹ کے ساتھ ساتھ جرمن سفیر پیٹر وٹک نے بھی بتایا کہ IAEA شام کے موضوع پر ستمبر میں اپنے بورڈ آف گورنرز کے لیے ایک نئی رپورٹ سامنے لانے والا ہے۔
شامی سفیر بشار جعفری نے کہا کہ سلامتی کونسل کا یہ اجلاس کسی نتیجے پر نہیں پہنچا کیونکہ یہ ’کونسل صرف اُنہی معاملات کو زیر غور لاتی ہے، جن کا تعلق امن و سلامتی کو درپیش خطرات سے ہو، نہ کہ اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک کے خلاف خواہ مخواہ گھڑے گئے بے بنیاد الزامات سے‘۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ