شام کا جوہری پروگرام، سلامتی کونسل میں قرارداد پیش
10 جون 2011ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کے جوہری ادارے آئی اے ای اے کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوئی قرار داد سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ہے۔ ایسی ہی ایک قرار داد پانچ سال قبل ایران کے خلاف پیش کی گئی تھی۔
بین الاقوامی جوہری ایجنسی کے 35 رکن ممالک میں سے 17 بورڈ ممبران نے مغربی ممالک کی حمایت یافتہ اس قرار داد کے حق میں جبکہ چھ ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ 2007ء میں شام کے علاقے Dair Alzou میں واقع ایک مبینہ جوہری کمپلیکس کو اسرائیل نے حملہ کرتے ہوئے تباہ کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے اقوام متحدہ کا جوہری ادارہ شام کے خلاف جوہری پروگرام کے حوالے سے اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے تھا۔
اسرائیلی بمباری کے بعد ایک امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گہا تھا کہ شمالی کوریائی ڈیزائن کا حامل یہ ری ایکٹر ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھا اور اس کا مقصد پلوٹونیم پیدا کرنا تھا۔ آئی اے ای اے نے بھی اس امریکی رپورٹ کی تصدیق کی ہے۔ جوہری ایجنسی کے مطابق ’زیادہ امکان‘ یہ ہے کہ یہ ایک ری ایکٹر تھا۔ شام کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر جوہری ملٹری بیس تھی۔
اقوام متحدہ کے لیے شامی سفیر باسم الصباغ کا کہنا تھا کہ ووٹنگ کے نتائج ’افسوسناک‘ ہیں تاہم کوئی بھی جوابی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا، ’’شام نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو پورا کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم ہمیشہ ایسا ہی کریں گے‘‘۔
اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر گلین ڈیوس کا کہنا تھا کہ شام کی طرف سے جوہری سرگرمیوں کو ’چھپانا‘ ناقابل قبول ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایک ری ایکٹر کی تعمیر اور پلوٹونیم کی پیداوار کا مقصد صرف ہتھیار تیار کرنا ہی ہو سکتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ شام کا جوہری پروگرام بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے۔
اس قرار داد سے ایک روز پہلے برطانیہ، فرانس ، جرمنی اور پرتگال نے شام میں مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائیاں کرنے کے حوالے سے بھی ایک قرار داد سلامتی کونسل میں پیش کی تھی۔ تاہم اس پر اتفاق نہیں ہوا تھا اور روس نے اس کی مخالفت کی تھی۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: امجد علی