شامی صدر پر پورپی یونین کی پابندیاں
23 مئی 2011پیر کے روز یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے شامی صدر بشار الاسد کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان پابندیوں کے تحت شامی صدر اب یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں سے کسی ملک کا سفر بھی نہیں کر سکتے اور یونین کے علاقے میں ان کے تمام اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔
قبل ازیں 10 مئی کو یورپی یونین نے شام کے 13 اعلیٰ حکومتی اہلکاروں پر بھی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ان اہلکاروں میں شامی صدر کے بھائی، ان کے ایک انتہائی امیر اور با اثر کزن اور خفیہ اداروں کے سربراہان بھی شامل تھے۔ اب اس فہرست میں شامی صدر کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ شام میں ’جبر ابھی بھی جاری ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ ضروری ہے کہ شامی حکومت آئندہ دنوں میں جبر کا راستہ ترک کرے، سیاسی قیدیوں کو رہا کرے اور ملک میں جامع اصلاحات کا راستہ اپنائے۔‘‘
اسی دوران وفاقی جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کا کہنا تھا کہ اگر بشار الاسد مظاہرین کی آواز سنتے اور اصلاحات کا راستہ اپناتے تو وہ ان پابندیوں سے بچ سکتے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’شامی صدر نے امن کے راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ انہوں نے پر امن احتجاجی مظاہریں پر طاقت کا بے جا استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں پابندیوں میں توسیع کرتے ہوئے انہیں بھی اس فہرست میں شامل کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
جرمن وزیر کے بقول، ’’جب بھی کوئی حکومت اپنے ہی عوام کو تشدد کا نشانہ بنائے گی تو یورپی یونین اس کا جواب ضرور دے گی۔‘‘
قبل ازیں یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران خاتون عہدیدار کیتھرین ایشٹن نے بھی اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے دمشق حکومت سے ملک میں اصلاحات شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ وہاں جاری خونریزی کو روکا جا سکے۔ پیر کے روز ہونے والے یورپی یونین کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت سے قبل ایشٹن نے کہا کہ شامی حکومت کے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ ملک میں دور رس اصلاحات کا آغاز کر دے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک