شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے حکمران تحمل کا مظاہرہ کریں، بان کی مون
21 فروری 2011نیویارک میں قائم یو این کے صدر دفتر میں سیکرٹری جنرل کے ترجمان نے بتایا کہ بان کی مون نے خطے کے رہنماوں سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔ ان کے بقول اقوام متحدہ اس تاریخی پیشرفت کے موقع پر ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہے۔ اقوام متحدہ نے عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ دہرایا ہے۔
اس سے قبل لیبیا کے صدر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے ملک میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہرین ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
لیبیا میں عوامی احتجاج میں شدت اور ہلاکتوں میں اضافے کے باوجود صدر معمر قذافی کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ ملک کے مشرقی علاقوں میں شروع ہونے والا احتجاجی سلسلہ اب دارالحکومت طرابلس کے قریب پہنچ رہا ہے۔
اتوار کی شب ٹیلی وژن پر خطاب میں صدر قذافی کے بیٹے نے کہا کہ پیر کو عوامی کانگریس میں اصلاحات کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا یقین دلاتے ہوئے تسلیم کیا کہ سکیورٹی دستوں سے مظاہرین کو منتشر کرنے میں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔
عرب دنیا میں سر اٹھانے والی عوامی لہر اب مراکش بھی پہنچ گئی ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں نے لیبیا میں مظاہرین کو دبانے کی ریاستی کوششوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عرب لیگ میں لیبیا کے مستقل مندوب عبد المنعم الہونی نے اپنا یہ عہدہ چھوڑکر مظاہرین کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
ذرائع ابلاغ پر عائد بندشوں کے سبب لیبیا کی حقیقی زمینی صورتحال سے متعلق مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہو رہیں۔ بین الاقوامی امدادی ادارے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومتی فورسز اور مظاہرین کی جھڑپوں میں لگ بھگ دو سو ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو مظاہرین پر بلا امتیاز فائرنگ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔
لیبیا میں صدر قذافی کے چار عشروں سے زیادہ عرصے سے جاری اقتدار کے خلاف عوامی بغاوت کے اس سلسلے کا آغاز بن غازی نامی شہر سے ہوا ہے۔ نظام مملکت میں تبدیلی اور مزید عوامی آزادی کے ان مطالبات پر تیونس اور مصر کے انقلاب کے اثرات نمایاں ہیں، جو اب ایک اور شمالی افریقی ریاست مراکش تک پھیل گئے ہیں۔ مراکش کے متعدد شہروں سے اتوار کو احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ دارالحکومت رباط میں لگ بھگ چار ہزار جبکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کاسابلانکا میں بھی اتنی ہی تعداد میں افراد نے مظاہرے کیے۔
دریں ا ثناء امریکہ اور یورپی یونین نے لیبیا کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر دیا ہے۔ واشنگٹن میں امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان فلپ کراؤلی نے کہا کہ ان کے ملک کو لیبیا سے موصول ہونے والی تصاویر اور رپورٹوں پر شدید تشویش لاحق ہے۔ ان کے بقول لیبیا میں بین الاقوامی امدادی اداروں اور صحافیوں کو رسائی حاصل نہیں، اس لئے ہلاکتوں کی درست تعداد واضح نہیں۔
جرمنی، فرانس اور یورپی یونین کی جانب سے بھی لیبیا میں تشدد کو روکنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ یورپی یونین میں خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے صدر قذافی پر زور دیا ہے کہ وہ مظاہرین کے مطالبات پر غور کریں اور ان سے مکالمت کا آغاز کریں۔
واضح رہے کہ لیبیا کی حکومت یورپی یونین کو خبردار کر چکی ہے کہ اگر اس پر زیادہ تنقید کی گئی تو یورپ جانے کے خواہش غیر قانونی تارکین وطن کا راستہ نہیں روکا جائے گا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امجد علی