شمالی علاقوں میں شدید لینڈ سلائیڈنگ، ہزاروں افراد کی منتقلی
14 مئی 2010گلگت کے علاقے میں درجنوں مکانات اور کھیت لینڈ سلائیڈنگ کے باعث مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں اور چینی سرحد کے قریب واقع اس علاقے میں لینڈ سلائیڈنگ میں شدت کی وجہ گرمی کے باعث گلیشیرز سے پانی کے اخراج میں اضافہ ہے۔
راولپنڈی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے، پاکستانی فوج کی انجینیئرنگ کمان کے سربراہ لیفٹینیٹ جنرل شاہد نیاز نے بتایا کہ وادی ہنزہ میں بننے والی اس مصنوعی جھیل کی سطح تین فٹ یومیہ کی حساب سے بڑھ رہی ہے۔
ممکنہ سیلاب کے خطرے کے پیش نظر اب تک 25 ہزار افراد محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے وہاں سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں اور یہ افراد کشتیوں کی مدد سے علاقے سے باہر نکلے ہیں۔ دریائے ہنزہ میں پانی کی سطح خطرے کے نشان تک پہنچ چکی ہے۔
لیفٹینیٹ جنرل نیاز نے بتایا کہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تمام تر اقدامات مکمل کئے جا چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مصنوعی طور پر بننے والی اس جھیل میں ممکنہ سیلاب کے خطرے کے پیش نظر ملکی فوج وہاں 36 دیہاتوں کو خالی کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ رواں برس جنوری میں لینڈ سلا ئیڈنگ کے باعث دریائے ہنزہ کا ایک حصہ بند ہو گیا تھا، جس کے بعد اس کی سطح میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور وہاں کے رہائشی علاقہ چھوڑنے لگے۔
وادی ہنزہ میں شدید ترین لینڈ سلائیڈنگ سے رواں برس جنوری میں 20 افراد ہلاک جبکہ درجنوں مکانات تباہ ہو گئے تھے۔
شاہد نیاز نے بتایا کہ فوجی انجینیئرز دریائے ہنزہ پر 235 میٹر چوڑی ایک ’سپل وے‘ تعمیر کر رہے ہیں تاکہ دریا سے پانی کا اخراج ممکن ہو پائے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ’سپل وے‘ کی تعمیر کے بعد سیلاب کی شدت میں پانچ فیصد تک کمی واقع ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس جھیل کے بند ٹوٹنے سے قبل ہی ’سپل وے‘ سے پانی کے اخراج کو ممکن بنا دیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ سپل وے کے قریبی دیہات بہرحال خطرے میں ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ جون کے آغاز میں ممکنہ طور پر پاکستان اور چین کو جوڑنے والی قراقرم ہائے وے کے متعدد حصے زیرآب آجائیں گے۔ ہنزہ ضلع سے تقریبا 1700 افراد کو ان کی مرضی کے خلاف علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ مقامی حکام نے ان افراد کے لئے سات مقامات پر امدادی مراکز قائم کئے ہیں، جہاں ممکنہ طور پر ان افراد کو عارضی طور پر ٹھہرایا جائے گا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شادی خان سیف