شمالی وزیرستان میں نیا ڈرون حملہ، کم ازکم 18 ہلاک
27 دسمبر 2010وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور قبائلی علاقے میں میر علی نامی قصبے سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے ایک مبینہ امریکی جاسوس طیارے سے یہ حملے ایک موٹر گاڑی اور ایک عمارت کے احاطے پر کئے گئے۔
میر علی شمالی وزیرستان کا ایک مرکزی قصبہ ہے اور ڈرون طیارے سے کئے گئے میزائل حملے اسی قصبے اور اس کے نواح میں کئے گئے۔ یہ قصبہ اور اس کے ارد گرد کا علاقہ طالبان اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔
ایک خفیہ ادارے کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ ان حملوں کے دوران ایک چیک پوسٹ کے قریب ایک موٹر گاڑی پر تین میزائل فائر کئے گئے، جس کے نتیجے میں اس گاڑی میں سوار تمام چھ مشتبہ عسکریت پسند مارے گئے۔
اس واقعے کے محض چند ہی منٹ بعد میر علی نامی قصبے کے نواحی گاؤں میر خان خیل کالے میں ایک مکان کے احاطے پر اسی ڈرون طیارے سے پانچ میزائل داغے گئے، جس کے نتیجے میں ہدف بنائی گئی عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور بعد میں موقع پر جمع ہونے والے افراد نے ملبے میں سے کم از کم بارہ افراد کی لاشیں نکالیں۔ اس حملے میں کئی دیگر افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔
امریکی افواج کی طرف سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کئے جانے والے ڈرون حملوں میں گزشتہ کچھ عرصے سے کافی تیزی آ چکی ہے۔ صرف 2010 کے دوران ایسے سو سے زائد حملوں میں اب تک 600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بہت سے مبینہ دہشت گرد بھی شامل ہیں۔
قبل ازیں اسی مہینے پاکستان قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں بھی صرف 24 گھنٹوں کے دوران کئے جانے والے چار مختلف ڈرون حملوں میں مجموعی طور پر پچاس سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے مطابق ایسے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے اکثریت مشتبہ طالبان باغیوں اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی ہوتی ہے تاہم ان دعووں کی غیر جانبدارانہ تصدیق اس لئے ممکن نہیں ہے کہ زیادہ تر پاکستانی قبائلی علاقوں میں پیشہ ور صحافیوں اور امدادی کارکنوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق