شمالی کوریا کے اعلیٰ سفارت کار، امریکہ کا دورہ کریں گے
24 جولائی 2011جنوبی کوریائی یونھاپ نیوز ایجنسی نے سیئول سفارتکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے ہونے والے ایک غیر معمولی اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کے پہلے نائب وزیر خارجہ Kim Kye-Gwan اور سابق جوہری مندوب جمعرات کو سینئر امریکی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے نیویارک کا دورہ کریں گے۔
اس ملاقات کے دوران کِم شمالی کوریا کے لیے خصوصی امریکی ایلچی سٹیفن بوس ورتھ کے ساتھ جوہری معاملے اور امریکی غذائی امداد کی بحالی پر مذاکرات کریں گے۔ نیوز ایجنسی نے سفارتی حوالے سے لکھا ہے کہ جنوبی کوریا اور امریکہ ایک عرصے سے ان کوششوں میں تھے کہ کِم امریکہ کا دورہ کریں اور جلد ہی امریکہ کی طرف سے اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا۔
کِم جوہری اسلحے کی تخفیف کے لیے ہونے والے چھ فریقی مذاکرات میں پیونگ یانگ حکومت کے نمائندے رہے ہیں گزشتہ برس انہیں ترقی دیتے ہوئے نائب وزیر خارجہ تعینات کر دیا گیا تھا۔ شمالی کوریا کی طرف سے یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے جنوبی کوریا کے ساتھ ہونے والے ایک انتہائی غیر معمولی اجلاس کے بعد سامنے آیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات گزشتہ دو برسوں سے جمود کا شکار اور کشیدہ چلے آ رہے تھے۔
گزشتہ جمعے کے روز انڈونیشیا میں ہونے والے ایشیائی سکیورٹی فورم کے دوران سیئول حکومت کے جوہری مذاکرات کار Wi Sung-Lac نے پیونگ یانگ حکومت کے اپنے نئے ہم منصب Ri Yong-Ho سے ملاقات کی تھی۔ دونوں مذاکرات کاروں کا کہنا تھا کہ چھ فریقی مذاکرات کا دوبارہ آغاز کیا جائے گا۔ اس سے پہلے اسی فورم کے دوران دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی بھی مختصر ملاقات ہوئی تھی، جس کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اچانک بات چیت کے آغاز پر ان کو حیرت ہوئی ہے تاہم یہ ایک جرات مندانہ قدم ہے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر دوبارہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر ہونے والا آخری چھ فریقی اجلاس دسمبر 2008ء میں ہوا تھا۔ ان مذاکرات میں شمالی کوریا، جنوبی کوریا، جاپان، چین، امریکہ اور روس شامل تھے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عصمت جبیں