شٹازی فائلوں کے صفحات کے ٹکڑے مشین جوڑے گی، رپورٹ
27 جنوری 2012سن 1989 میں سابق مشرقی جرمنی میں دیوار برلن کے انہدام کے وقت شٹازی دستاویزات کو اوّل تو مشینوں کی مدد سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کیا گیا، تاہم جب یہ مشین خراب ہو گئی، تو پولیس کے اہلکاروں نے ہزاروں فائلوں کو ہاتھوں ہی سے پھاڑ پھاڑ کر ٹکڑے بنانے کی کوشش کی، تاکہ یہ کاغذات کبھی دوبارہ پڑھے نہ جا سکیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی مشرقی اور مغربی حصوں میں بٹ گیا تھا۔ تاہم دیوار برلن سن 1961ء میں قائم کی گئی، جو 28 برس بعد سن 1989ء میں منہدم کر دی گئی۔
اس دوران مشرقی جرمنی میں شٹازی پولیس شہریوں سے متعلق خفیہ معلومات جمع کرتی تھی۔ اس دیوار کے انہدام اور مشرقی جرمنی کے خاتمے کے وقت شٹازی کے اہلکاروں نے ہزاروں فائلوں کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی، تاہم سٹیزن کمیٹی یا شہریوں کے ایک بڑے گروپ نے شٹازی کے دفتر پر دھاوا بول کر لاکھوں دستاویزات اور کاغوں کے ٹکڑے اپنے قبضے میں لے لیے۔ اس طرح ان کاغذات سے بھرے ساڑے پندرہ ہزار بیگ بنائے گئے اور ہر بیگ میں کاغذات کے پچاس سے اسّی ہزار کے درمیان ٹکڑے رکھے گئے۔ یہ لاکھوں کاغذات ٹکڑوں ہی کی صورت میں سہی مگر موجود رہے۔ لیکن اب ایک خصوصی طور پر تیار کردہ مشین جانچ کے آخری مراحل میں ہے، جو ان چھوٹے چھوٹے ٹکروں کو سکین کر کے اس قابل بنا دے گی کہ ہر تحریر باآسانی پڑھی جا سکے۔
سن 1995ء میں ان کاغذات کے ٹکڑوں کو ہاتھوں کی مدد سے پڑھنے کے قابل بنانے کے لیے سرگرمیوں کا آغاز ہوا تھا۔ ان کوششوں کا مقصد یہ جاننا تھا کہ مشرقی جرمنی میں کمیونسٹ دور حکومت میں خفیہ پولیس نے شہریوں کی جاسوسی کر کے بنائی گئی فائلوں میں کیا معلومات جمع کی تھیں۔
جرمن شہریوں کے بارے میں عموماﹰ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کے حوالے سے خاصے حساس ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 20 برس قبل شٹازی آرکائیوز کے کھولے جانے کے بعد اس آرکائیو کے امور سے متعلق خدمات انجام دینے والے وفاقی جرمن دفتر کو دو اعشاریہ آٹھ ملین سے زائد درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، جن میں درخواست گزاروں نے استدعا کی ہے کہ وہ شٹازی پولیس کی بنائی گئی وہ فائل دیکھنا چاہتے ہیں، جو ان سے متعلق ہے۔
شٹازی فائلوں سے متعلق اس پروگرام کے ڈائریکٹر یواخم ہوئسلر کے مطابق سن 2000 میں جرمن ایوان زیریں نے اس حوالے سے کام کو تیز رفتار بنانے اور ایسے کاغذات کو پڑھنے کے قابل بنانے کے عمل میں تیزی کے لیے کہا تھا، جو ٹکڑوں میں ہیں۔
ہوئسلر کے مطابق اس حوالے سے ایک مشین تجرباتی بنیادوں پر سن 2007ء میں تیار کی گئی تھی۔ تاہم اس مشین کے ذریعے حاصل کردہ نتائج انتہائی بہتر رہے ہیں۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: ندیم گِل