شکیل آفریدی کی جلد رہائی کی امید ہے یا نہیں؟
2 مئی 2016اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے پانچ برس مکمل ہونے پر پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی قید کی طرف بھی دھیان چلا جاتا ہے۔ اسی ڈاکٹر نے مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کا کھوج لگانے میں سی آئی اے کی مدد کی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آفریدی کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ ہے۔ شکیل آفریدی کو تئیس برس کی سزائے قید سنائی گئی تھی لیکن انہیں اس سزا کے خلاف اپیل کرنے میں ابھی تک مشکلات کا سامنا ہے۔
شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی کے مطابق ان کی اپنے بھائی سے ملنے کی تمام امیدیں ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ شکیل آفریدی کو وکیل تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے جمیل آفریدی نے کہا، ’’مجھے امید نہیں کہ میں اب اپنے بھائی سے دوبارہ مل سکوں گا۔ مجھے انصاف کی کوئی توقع نہیں رہی۔‘‘
شکیل آفریدی کے وکیل کے مطابق ان کے مؤکل کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، جہاں انتہائی سخت سکیورٹی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ ان کی قانونی اپیل کی درخواست پر کوئی پیش رفت ہو سکے۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں شکیل آفریدی کا کردار واضح نہیں ہے۔ آفریدی کی گرفتاری کس طرح عمل میں آئی تھی، اس بارے میں بھی کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے کچھ دنوں بعد شکیل آفریدی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے جنگجوؤں سے روابط تھے۔ تاہم شکیل آفریدی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
پاکستانی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملکی حکومت نے شکیل آفریدی پر غداری کے بجائے یہ الزام اس لیے عائد کیا تھا کیونکہ دوسری صورت میں یہ بحث شروع ہو سکتی تھی کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی۔
امریکی حکومت نے شروع میں کوشش کی تھی کہ شکیل آفریدی کی رہائی کو ممکن بنایا جائے، جس کی خاطر کچھ اقدامات بھی کیے گئے تھے لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ واشنگٹن حکومت نے بھی اپنی اس کوشش کو بظاہر ترک کر دیا۔
پاکستانی مصنف اور سکیورٹی تجزیہ نگار احمد رشید کے مطابق امریکا کی طرف سے شکیل آفریدی کی حمایت ختم اس لیے ہوئی کیونکہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہتا تھا، ’’طالبان کے ساتھ مذاکرات نے اولین ترجیح حاصل کر لی تھی۔‘‘
شکیل آفریدی کے وکیل قمر ابراہیم کا موقف ہے کہ ان کے مؤکل کی جلد رہائی کی امید صرف اسی صورت میں ممکن ہے، کہ اس کے لیے امریکا پاکستان پر دباؤ ڈالے۔ تاہم انہوں نے بھی یہی کہا کہ واشنگٹن حکومت اب اس تناظر میں مزید کوئی کوشش نہیں کر رہی۔ قمر ابراہیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ دو برس سے انہیں اپنے مؤکل سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
دوسری طرف وُڈرو ولسن سینٹر سے وابستہ تجزیہ نگار مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ آفریدی کی جلد رہائی کی امیدیں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی حکومت شور مچانے کے بجائے اب خاموشی سے اسلام آباد حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ کوگلمین کے بقول واشنگٹن کو علم ہو چکا ہے کہ اس معاملے کو عوامی سطح پر لانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، ’’اسی لیے خاموش سفارت کاری کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔‘‘