شہباز بھٹی فائرنگ میں ہلاک، طالبان باغیوں نے ذمہ داری قبول کر لی
2 مارچ 2011عینی شاہدین کے مطابق شہباز بھٹی کو مسلح افراد نے بدھ کے روز 11 بجے کے قریب اس وقت فائرنگ کر کے ہلاک کیا، جب وہ اپنے گھر سے دفتر جا رہے تھے۔ شہباز بھٹی نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کرنا تھی۔ شہباز بھٹی پر فائرنگ کرنے والوں نے وہاں پر ایک پمفلٹ بھی پھینکا ہے، جس پر ’ فدایان محمد ‘ اور تنظیم القاعدہ تحریک طالبان پنجاب کے الفاظ درج تھے اس پمفلٹ کے متن میں یہ بھی لکھا ہوا ہے، ’گستاخان رسول کو اسی طرح موت کے گھاٹ اتارا جائے گا‘۔
ذرائع کے مطابق حملے کے وقت شہباز بھٹی کا سرکاری حفاظتی سکواڈ بھی ان کے ہمراہ نہیں تھا۔ شہباز بھٹی کو گولیاں لگنے کے فوراً بعد قریب ہی واقع شفاء نامی ایک نجی ہسپتال پہنچایا گیا۔ ہسپتال کے ترجمان عظمت اللہ قریشی نے شہباز بھٹی کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک ہو چکے تھے۔
آئی جی اسلام آباد واجد درانی کے مطابق پولیس نے انہیں حفاظتی سکواڈ مہیا کر رکھا تھا، جسے شہباز بھٹی نے خود پیچھے رکنے کے لیے کہا اور اس بات کو دیکھا جائے گا کہ حملے کے وقت سکواڈ کہاں تھا ۔ آئی جی کے مطابق شہباز بھٹی کو دس گولیاں لگیں۔
خیال رہے کہ شہباز بھٹی کُل جماعتی اقلیتی الائنس کے سربراہ بھی تھے۔ پنجاب کے گورنرسلمان تاثیر کے قتل کے بعد شہباز بھٹی نے اپنے بیانات میں کہا تھا کہ شدت پسند انہیں بھی قتل کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہباز بھٹی کو کافی عرصے سے شدت پسندوں کی جانب سے قتل کیے جانے کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔ توہین رسالت کے الزام میں گرفتار پنجاب کے شہر شیخوپورہ کی رہائشی آسیہ بی بی کی رہائی کے حوالے سے مدد کرنے پر سخت گیر مذہبی تنظیموں کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا تھا ۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شہباز بھٹی کے قتل کی پرزور مذمت کی ہے۔
دریں اثناء سول سوسائٹی ، وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شہباز بھٹی کے قتل کو پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن قرار دیا ہے۔ پولیس نے اسلام آباد کے تمام داخلی و خارجی راستوں کی ناکہ بندی کرا دی ہے اور ملزمان گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: عاطف بلوچ