شہباز بھٹی کے قتل کے سوگ میں کل قومی پرچم سرنگوں رہے گا
3 مارچ 2011وزیراعظم کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق پاکستان کے پرچم کا سفید حصہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔
جمعرات کے روز وزیرداخلہ رحمان ملک نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی۔ اور انہیں شہباز بھٹی کے قتل کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ’’ریاست مخالف عناصر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے اہم ملکی شخصیات کو نشانہ بنانے کے لیے آخری کوششیں کر رہے ہیں‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے سیکورٹی فول پروف انتظامات کرے گی تا کہ وہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ بعد ازاں ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے وزیرداخلہ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ مقتول وزیر شہباز بھٹی کا قتل اگر سیکورٹی کی ناکامی ہوتی تو وہ خود مستعفی ہو جاتے۔
انہوں نے کہا کہ شہباز بھٹی کو سکیورٹی مہیا کرنا ان کی نہیں بلکہ کابینہ ڈویژن کی ذمہ داری تھی جس کے لیے وزارت داخلہ نے ایک مراسلہ بھی تحریر کیا تھا جس میں شہباز بھٹی سمیت ان وزراء کو بلٹ پروف گاڑیاں مہیا کرنے کا کہا گیا تھا جن کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر طالبان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ’’ طالبان ظالمان ہیں ، دہشتگرد ہیں اور وہ ملک و قوم کے خلاف ہیں۔‘‘
دوسری جانب پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اسلام آباد میں شہباز بھٹی کی رہائشگاہ پر جا کر ان کے اہلخانہ سے تعزیت کی۔ اس موقع پر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قتل کی اس واردات پر کسی کو سیاست نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وزیرداخلہ رحمان ملک پنجابی طالبان کی اصطلاح استعمال کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے شہباز بھٹی کے قتل کو پوری قوم کے لیے افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہاکہ’’ میں یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر ہم قانون اور انصاف کے مطابق جو بھی اس واردات میں ملوث مجرم ہیں ان کو قرار واقعی سزا دلوائیں گے اور پنجاب حکومت اس معاملے میں وفاق سے بھرپور تعاون کرے گی۔‘‘
سول سوسائٹی، انسانی حقوق اور غیر سرکاری تنظیموں کے علاوہ عالمی برادری کی جانب سے شہباز بھٹی کے قتل کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کی صاحبزادی سارہ تاثیر کا کہنا ہے کہ ’’شہباز بھٹی کا قتل میرے والد کے قاتل اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ سمجھوتے کی پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اگر شدت پسندوں کے خلاف آواز نہ اٹھائیں اور ان کو بہلانے پھسلانے کا ماحول پیدا کیا جائے تو پھر اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔‘‘
اسی مد میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں تمام اراکین نے شہباز بھٹی کے قتل کے خلاف احتجاجاً علامتی واک آؤٹ کیا۔ بعد ازاں شہباز بھٹی کے قتل کے واقعہ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ شہباز بھٹی کے جسم پر لگنے والی گولیوں سے پاکستان کا چہرہ مسخ ہوا ہے اور ملک میں ایک بار پھر مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔
مسلم لیگ ق کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی اکرم مسیح گل کا کہنا تھا کہ شیری رحمان کو اگر سیکورٹی خطرات کے سبب بلٹ پروف گاڑی دی جا سکتی ہے تو شہباز بھٹی کو یہ سہولت کیوں نہیں دی گئی۔
رپورٹ: شکوررحیم،اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں