شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا
8 مئی 2021پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کو ہفتہ آٹھ مئی کی صبح کو لاہور ہوائی اڈے سے قطر کے راستے برطانیہ جانے کی مبینہ طور پر اجازت نہیں دی گئی۔ ذرائع کے مطابق امیگریشن حکام نے شہباز شریف سے کہا کہ 'ہمارے سسٹم میں آپ ابھی تک بلیک لسٹ ہیں‘۔
سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف کی جانب سے حکام کو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی دکھایا جا رہا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں، ”میں آپ سے بحث نہیں کر رہا، لیکن عدالت نے مجھے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی ہے۔"
مسلم لیگ نون کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے مقامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس اقدام کو حکومت کی 'بدنیتی‘ قرار دیا۔
انہوں نے بتایا، ”جب شہباز شریف آج ائیرپورٹ پہنچے تو فیڈرل انوسٹی گیشن اتھارٹی (ایف آئی اے) کے عہدیداروں نے انہیں روکا اور کہا کہ وہ سفر نہیں کر سکتے کیوں کہ ان کا نام 'پرسن ناٹ اِن لسٹ‘ (پی این آئی ایل) فہرست میں ہے اور ایف آئی اے کا سسٹم عدالتی حکم کے بعد ابھی اپ ڈیٹ نہیں ہوا ہے۔"
مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ جمعے کے روز جب لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی اس وقت ایف آئی اے کے دو اہلکار عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے شہباز شریف کو علاج کے لیے ملک سے باہر جانے سے روکنے کے اقدام کو حکومت کی بدنیتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت عوام کو درپیش مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی پوری توجہ سیاسی مخالفین پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔
مریم اورنگ زیب کا کہنا تھاکہ عدالتی حکم میں مسلم لیگ نون کے صدر کے قطر جانے والی فلائٹ نمبر کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے شہباز شریف کے نام کو پی این آئی ایل میں شامل کرنے کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی قرار دیا۔
انہوں نے دعوی کیا کہ وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیر اعظم کے مشیر برائے امور داخلہ شہزاد اکبر بیانات جاری کر کے کہہ رہے ہیں کہ وہ 'عدالتی حکم کو تسلیم نہیں کرتے‘ اور شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے 'ہر ممکن کوشش‘ کریں گے۔
خیال رہے کہ جمعہ سات مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کے لیے نام بلیک لسٹ سے نکلوانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں بیرون ملک سفر کرنے کی مشروط اجازت دی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا، ''ماضی کے رویے اور سفری معلومات کے پیش نظر درخواست گزار کا نام اس وقت ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر نہیں ہے اور موجود ہو تو بھی انھیں آٹھ مئی 2021 سے تین جولائی 2021 کے درمیان ایک مرتبہ اپنے طبی معائنے کے لیے عدالت کے سامنے کیے گئے وعدے کے تحت برطانیہ جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔"
امیگریشن حکام کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے سسٹم کو اب تک اس فیصلے کے مطابق اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے اس لیے شہباز شریف کو آف لوڈ کیا گیا۔ شہباز شریف جہاز کی روانگی تک ایئرپورٹ پر موجود رہے جس کے بعد جب انھیں تحریری طور پر آف لوڈ فارم فراہم کیا گیا تو وہ اپنی رہائش گاہ کے لیے روانہ ہو گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا تھا، ''اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث شہباز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینا قانون کے ساتھ مذاق ہے۔‘‘
ج ا /ش ح (اے پی، اے ایف پی)