شہری عدالت نے فوجی عدالت کے فیصلے کو مؤخر کر دیا
25 اگست 2015حیدر علی کے وکیل اجمل خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے میرے مؤکل حیدر علی کو فوجی عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزائے موت کو معطّل کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوجی حکام نے حیدر علی کے والدین سے ملاقات کر کے انہیں اس سزا کے بارے میں بتایا تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اُسے یہ سزا کیوں دی گئی۔
وکیل اجمل خان نے مزید بتایا کہ علی کو 2009ء میں ایک جرگے نے فوج کے حوالے کیا تھا اور اس کے بعد سے اس کے اہل خانہ کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، ’’ 2009ء میں فوجی تحویل کے بعد سے میرے مؤکل کے گھر والوں کو کبھی اس سے نہیں ملنے دیا گیا اور انہیں یہ تک نہیں بتایا گیا کہ حیدر علی کو کہاں رکھا گیا ہے‘‘۔
پاکستان میں جنوری میں دہشت گردی کے مقدمات سننے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں تھیں۔ اس موقع پر وکلاء اور شہری حقوق کی تنظیموں نے ان عدالتوں کو متنازعہ قرار دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ فوجی عدالتوں میں کسی بھی مقدمے کی سنوائی شفاف انداز میں نہیں کی جا سکتی۔ عدالت عظمیٰ نے اس مہینے کے آغاز میں اس فیصلے کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام غیر آئینی نہیں ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف شہری عدالتوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
حیدر علی کے وکیل اجمل خان نے مزید کہا، ’’ جس وقت میرے مؤکل کو گرفتار کیا گیا وہ دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس کی عمر پندرہ سال کے لک بھگ تھی‘‘۔ ان کے بقول حیدر علی کی سزائے موت کے فیصلے کے بارے میں اس کے اہل خانہ کو ذرائع ابلاغ کے توسط سے پتا چلا تھا۔