شہریت ترمیمی بل غیر آئینی، غیر جمہوری ، بھارتی ماہرین
10 دسمبر 2019بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی طرف سے پیش کردہ بل پر کئی گھنٹوں تک گرما گرم بحث کے بعد لوک سبھا نے 80 کے مقابلے311 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی۔ مودی حکومت نے اسے ایک تاریخی کامیابی قرار دیا۔ اس بل کو اب ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔
ایوان بالا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہے تاہم امیت شاہ نے امید ظاہر کی کہ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود جس طرح ان کی حکومت تین طلاق کے خلاف اور دفعہ 370 کو ختم کرنے سے متعلق بلوں کو راجیہ سبھا سے منظور کرانے میں کامیاب رہی ہے اسی طرح شہریت ترمیمی بل کو بھی قانون بنانے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کر لیا جائے گا۔
شہریت ترمیمی بل 2019 ء کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے 2015 ء سے پہلے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، مسیح، جین، بودھ اور پارسی مذہب کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی اور انہیں غیر قانونی تارکین وطن نہیں سمجھا جائے گا۔ مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب بھارت نے کسی دوسرے ملک کے شہری کو مذہبی بنیاد پر شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔آئینی ماہرین اسی بنیاد پر اس بل کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دے رہے ہیں۔
لوک سبھا کے سابق سکریٹری جنرل پی ڈی ٹی آچاری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”شہریت ترمیمی بل آئین کے خلاف ہے کیوں کہ آئین میں کسی کو مذہبی بنیاد پر شہریت دینے کی بات نہیں کہی گئی۔ اس بل میں مذہب کے نام پر ایک گروپ کو الگ کر دیا گیا ہے۔ آپ مسلمانوں کو اس سے باہر رکھ رہے ہیں لیکن دوسرے مذہبی گروپوں کو اس میں شامل کررہے ہیں۔ حالانکہ آئین کے تحت شہریت کا قانون واضح طور پر سیکولر ہے۔"
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس بل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں، اس لیے بھارت انہیں اپنے یہاں پناہ دینا اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ لیکن آچاری اس دلیل کو درست نہیں مانتے۔ ان کا کہنا تھا، ”بل میں مذہبی زیادتی کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کچھ چھپا رہی ہے اور واضح نہیں کرنا چاہتی کہ وہ کس بنیاد پر ان مذاہب کے لوگوں کو شہریت دینا چاہتی ہے۔" اچاری کہتے ہیں، ”مذہبی زیادتی ہی اگر اس بل کی بنیاد ہے تو دیگر ملکوں میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں اس بل میں آخر ان ملکوں کے لوگوں کو کیوں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ، چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ، تبت میں بودھوں کے ساتھ اور سری لنکا میں تملوں کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں لیکن ان ملکوں کو کیوں شامل نہیں کیا گیا ہے؟ یہ بہت بڑا تضاد ہے۔"
آئینی امور کے ایک اور ماہر پروفیسر ڈاکٹر امل کمار مکھرجی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ بل غیر آئینی ہے کیوں کہ یہ بھارتی آئین کے سیکولر نظریات سے پوری طرح متصادم ہے۔ یہ مساوات کے بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔"
پروفیسر مکھرجی کا مزید کہنا تھا،”یہ غیر جمہوری بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ بھارت کے عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں کر سکتے جو کہ اس بل کے ذریعہ کیا گیا ہے اس لیے یہ غیر جمہوری ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ نے کئی ملکوں کے نام لیے ہیں۔ آپ ان کا نام لے سکتے ہیں۔ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سارک ممالک ہیں اور سارک کے اصول کے مطابق آپ مذہب کی بنیاد پر کسی شہری سے تفریق نہیں کر سکتے۔"
ماہرین قانون اسے بھارتی آئین کی دفعہ 14 کے خلاف قرار دے رہے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کسی کو بھی مساوات اور یکساں تحفظ کے حق سے محروم نہیں کر سکتی ہے۔ اسی طرح آئین کی دفعہ 13میں کہا گیا ہے کہ ریاست ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی، جو کسی شہری کو اس کے بنیادی حق سے محروم کرے۔
امیت شاہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین کی دفعہ 14 اس قانون کی راہ میں کسی بھی صورت میں حائل نہیں ہے کیوں کہ اس میں'معقول توضیح‘ کے ساتھ قانون سازی کی اجازت دی گئی ہے۔ 1971ء میں اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش سے آنے والوں کو شہریت دینے کا اور پاکستانیوں کو یہ سہولت نہیں دینے کا فیصلہ اسی'معقول توضیح‘ کی بنیاد پر کیا تھا۔
بہرحال ماہرین کا ایک حلقہ کہتا ہے کہ یہ بل آئین کے بنیادی ڈھانچہ سے متصادم نہیں ہے۔
آئینی امور کے ماہر سبھاش کشیئپ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ لیکن 'معقول توضیح‘ کے بارے میں کوئی زبانی کلامی بات نہیں ہو سکتی۔ اسے عدالت میں ثابت کرنا پڑے گا۔ غیر قانونی طور پر آنے والے اور پناہ گزینوں میں فرق کرنا ہوگا۔ غیر قانونی طورپر آنے والوں نے قانون شکنی کی ہے لیکن جو پناہ مانگ رہا ہے اس نے تو کوئی قانون شکنی نہیں کی۔"
ماہر آئین اچاری کاخیال ہے، ”اگر عدالت میں یہ معاملہ جاتا ہے تو یہ بل ٹھہر نہیں پائے گا۔ عدالت اس بل کو مسترد کردے گی۔"
ج ا /ع ا ( نئی دہلی)