شیعہ رہنما کے خلاف اقدام پر ایرانی جنرل کی بحرین کو وارننگ
21 جون 2016ایران کے پاسدارن انقلاب کی بیرون ممالک کارروائیوں کے لیے ذمہ دار’ قدس فورس‘ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی جانب سے یہ انتباہ امریکا کی اپنے خلیجی عرب اتحادی کے اس اقدام پر شدید نکتی چینی کے بعد سامنے آیا ہے۔ جنرل سلیمانی نے پیر کے روز سرکاری میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ یقینا بحرین کی حکومت اس بات سے آگاہ ہے کہ اس نے آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کے خلاف جارحانہ اقدام اٹھا کر اس حد کو پار کر لیا ہے جس کے بعد عوام کے پاس مسلح مزاحمت کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہ جائے گا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’بحرین کے حکمرانوں کو اس اقدام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی اور اس کا نتیجہ خون کی پیاسی اس حکومت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔‘‘ جنرل سلیمانی کی طرف سے یہ ایک غیر معمولی اعلان تھا۔ جب سے ایران نے اپنے پڑوسی ممالک عراق اور شام میں فوجی مداخلت میں اضافہ کیا ہے، جنرل سلیمانی بہت تیزی سے ایک اہم جنرل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ تاہم اب بھی وہ پالیسی معاملات پر بہت کم بات کرتے ہیں۔
ایران طویل عرصے سے بحرین کے مطلق العنان سنی خاندان کی حکمرانی کے خلاف وہاں کی شیعہ اکثریت کے حقوق کی ترجمانی کرتا چلا آ رہا ہے۔ تاہم ایران نے مناما کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے کہ ریاست میں تشدد کی کارروائیوں کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ یاد رہے کہ بحرین کی حکومت نے گزشتہ روز شیعہ روحانی رہنما کے خلاف فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے بیان میں ان الزامات کی جانب اشارہ کیا تھا۔
بحرین کی وزارت داخلہ کے اس بیان میں کہا گیا تھا کہ شیخ قاسم نے غیر ملکی مفادات کی خدمت اور ریاست میں فرقہ واریت اور تشدد کے فروغ میں اپنی حیثیت کا غلط استعمال کیا ہے۔ سن 2011 میں بحرین میں شیعہ اکثریت کی جانب سے شدید احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے جن میں مظاہرین نے ایک منتخب وزیر اعظم اور آئینی قیادت کا مطالبہ کیا تھا۔ اگرچہ بحرین کی سکیورٹی فورسز نے ان مظاہروں کو کچل دیا تھا لیکن اس کے بعد سے اس خلیجی ریاست میں سیاسی بدامنی کا راج ہے۔ احتجاجی مظاہروں کا یہ سلسلہ بحرین کے پڑوسی ملک سعودی عرب میں بھی شیعہ اکثریتی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ رواں سال جنوری میں سعودی عرب نے ان مظاہروں کے روح رواں شیخ نمر النمر کو پھانسی دے دی تھی۔ ان کی پھانسی کے بعد تہران اور ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں احتجاجی مظاہروں کے دوران سعودی سفارت خانوں کو آگ لگا دی گئی تھی جس سے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔