صالح عبدالسلام نے عدالت میں چُپ سادھ لی
20 مئی 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ بیس مئی بروز جمعہ صالح عبدالسلام کو پیرس کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے عدالتی کارروائی میں معاونت سے انکار کر دیا۔
عدالتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ عدالت نے اپنی کارروائی کو مختصر کر دیا کیونکہ ملزم عدالت میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
قبل ازیں صالح کو پیرس کے نواح میں واقع ایک ہائی سکیورٹی جیل سے خصوصی انتظامات کے ساتھ عدالت میں لایا گیا تھا۔ اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات بھی کیے گئے تھے۔
فرانسیسی استغاثہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ’’عدالتی کارروائی کے آغاز سے ہی ملزم نے خاموشی اختیار کرنے کا اپنا حق استعمال کیا۔ اس نے عدالتی سوالات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ صالح کے وکیل نے کہا تھا کہ بیلجیم میں پیدا ہونے والا فرانسیسی شہری صالح عدالت کے ساتھ تعاون کرے گا۔ بیلجیم سے اٹھارہ مارچ کو گرفتار کیا گیا چھبیس سالہ صالح ستائیس اپریل کو بیلجیم سے فرانس منتقل کیا گیا تھا تاکہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔
صالح پر الزام ہے کہ وہ گزشتہ برس تیرہ نومبر کو پیرس میں ہوئے حملوں میں ملوث تھا۔ ان خونریز حملوں میں 130 افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔ اپنی گرفتاری تک صالح کو یورپ کا مطلوب ترین شخص قرار دیا گیا تھا۔ وہ ان حملوں کے بعد چار ماہ تک فرار رہا تھا۔
صالح عبدالسلام پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں لیکن ابھی تک واضح طور پر معلوم نہیں ہے کہ اس کا پیرس حملوں میں کیا کردار تھا۔ فرانسیسی استغاثہ کا کہنا ہے کہ حملوں کے وقت صالح نے بھی ایک خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی لیکن آخری لمحات میں اس نے خود کش حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔
صالح بعد ازاں بیلجیم فرار ہو گیا تھا، جہاں اس نے پہلے بھی اپنی زندگی کا بیشتر وقت گزارا تھا۔ اس کا بڑا بھائی تیرہ نومبر کی رات حملوں کے دوران ہی ایک خود کش کارروائی میں مارا گیا تھا۔