1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر اسد کے خلاف پابندیوں کے بارے میں تحفظات

24 اگست 2011

جہاں یورپی یونین اور امریکہ اقوام متحدہ کی جانب سے شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف پابندیوں کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، وہاں روس اور چین کے ساتھ ساتھ برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ بھی غالباً اس حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں

https://p.dw.com/p/12Mtp
تصویر: AP

منگل 23 اگست کو یورپی یونین اور امریکہ نے عالمی سلامتی کونسل میں ایک مسودہء قرارداد پیش کیا، جس میں مظاہرین کے خلاف شامی سکیورٹی فورسز کی بے رحمانہ کارروائیوں کی وجہ سے شام کے خلاف ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی سمیت مزید پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ میں نائب برطانوی سفیر فلیپ پرہم نے نیویارک میں 15 رکنی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کے بعد بتایا کہ اُن کے ملک کے ساتھ ساتھ جرمنی، فرانس، پرتگال اور امریکہ کی تائید و حمایت سے بھی پیش کیے گئے اس مسودہء قرارداد میں بینک اکاؤنٹ منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ ویزے کی پابندیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

جن 22 افراد کے سفر پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، اُن میں صدر بشار الاسد کا نام شامل نہیں ہے
جن 22 افراد کے سفر پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، اُن میں صدر بشار الاسد کا نام شامل نہیں ہےتصویر: dapd

مسودے میں شامل ایک فہرست میں 23 شخصیات اور چار اداروں یا کمپنیوں کے نام دیے گئے ہیں، جن کے اثاثے منجمد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ تاہم جن 22 افراد کے سفر پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، اُن میں صدر بشار الاسد کا نام شامل نہیں ہے۔

جہاں مغربی دُنیا کے سفارتکار اِس قرارداد پر جلد رائے شماری کی توقع کر رہے ہیں، وہاں سلامتی کونسل میں مستقل نشست اور ویٹو کی طاقت کے حامل ملکوں روس اور چین کی جانب سے اس قرارداد کے خلاف شدید مزاحمت متوقع ہے۔

ویٹو کی طاقت رکھنے والے ملک روس نے تو فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اس مسودے کی مخالفت کی۔ اقوام متحدہ میں روسی سفیر وطالی چُرکین نے منگل کے اجلاس سے پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ پابندیاں عائد کرنے کے لیے یہ کوئی مناسب وقت نہیں ہے۔

اقوام متحدہ میں روسی سفیر وطالی چُرکین نے منگل کے اجلاس سے پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ پابندیاں عائد کرنے کے لیے یہ کوئی مناسب وقت نہیں ہے
اقوام متحدہ میں روسی سفیر وطالی چُرکین نے منگل کے اجلاس سے پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ پابندیاں عائد کرنے کے لیے یہ کوئی مناسب وقت نہیں ہےتصویر: AP

چین کا بھی کہنا ہے کہ ابھی مزید بات چیت عمل میں لائی جانی چاہیے۔ بیجنگ میں وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان ما ژاؤ سُو نے کہا: ’’شام کے تنازعے کے فریقین کو مکالمت اور صلاح و مشورے کا راستہ اختیار کرتے ہوئے معاملے کو مناسب اور پُر امن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔ شام کے مستقبل کا فیصلہ خود شام کو ہی کرنا چاہیے۔‘‘

مغربی سفارتکاروں کے مطابق برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ بھی شدید تحفظات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اس مسودہء قرارداد میں اُن تمام افراد اور اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے، جنہوں نے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر شام کی شہری آبادی کے خلاف پُر تشدد کارروائیوں کے سلسلے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔

سلامتی کونسل میں کسی بھی قرارداد کی منظوری کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اُسے کونسل کے کم از کم 9 ارکان کی حمایت حاصل ہو اور ویٹو رکھنے والی کوئی ایک بھی طاقت اُس کی مخالفت نہ کرے۔

رپورٹ: امجد علی 

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں