ضمنی الیکشن یا ’آٹھ فروری کے الیکشن کا ری پلے‘
22 اپریل 2024مسلم لیگ نون نے اس کامیابی کو اس کی حکومت کی پالیسیوں پر عوام کے اعتماد کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف اس انتخابی رزلٹ کو دھاندلی کا شاخسانہ قرار دے رہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کے روز قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلیوں کی سولہ نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں میں سے دو نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ نون کے امیدوار لاہور سے علی پرویز ملک اور قصور سے ملک رشید احمد جیتے جبکہ کے پی کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی تحریک کونسل کے اُمیدوار اور وزیراعلی کے پی علی امین گنڈا پور کے بھائی فیصل امین گنڈا پور کامیاب ہوئے ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کی قمبر شہداد کوٹ سندھ سے بلاول بھٹو کی خالی کردہ نشست پر پیپلز پارٹی ہی کے امیدوار خورشید جونیجو جیت گئے۔ جبکہ باجوڑ سے آزاد امیدوار مبارک زیب نے قومی اسمبلی کی سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔
اس رپورٹ کے فائل ہونے تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق الیکشن کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق صوبائی اسمبلی کی سولہ نشستوں میں سے دس نشستوں پر نون لیگ جیت چکی ہے جبکہ دیگر نشستیں حاصل کرنے والوں میں ق لیگ، پیپلز پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی اور سنی تحریک سمیت آزاد امیدوار بھی شامل ہیں۔
اس الیکشن میں سابق وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہی اور ان کے صاحب زادے مونس الٰہی بھی شکست کھا گئے۔ مسلم لیگ نون مریم نواز اورشہباز شریف کی طرف سے خالی کی جانے والی اپنی نشستیں واپس حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ نارووال میں احسن اقبال کے صاحبزادے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر فتح یاب ہوئے۔ ناروال کے ایک انتخابی جھگڑے میں ایک شخص ہلاک ہوگیا ہے جسے مسلم لیگ نون کا کارکن بتایا جا رہا ہے۔
الیکشن کے نتائج کے اثرات
تجزیہ نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کے ان نتائج سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پارٹیوں کی عددی حیثیت پر کوئی خاص فرق تو نہیں پڑے گا البتہ مسلم لیگ نون اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرے گی کہ عوام نے ان کی پالیسیوں اور کارکردگی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے لیکن دوسری طرف پی ٹی آئی کو بھی اپنی تنظیمی خامیوں کا اب بہتر اندازہ ہو سکے گا اور پارٹی کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو اسے دور کرنا ہوگا۔ ''یہ بات ایک مرتبہ پھر ثابت ہو گئی ہے کہ جب تک معاملات طے نہیں ہوتے پی ٹی آئی کی دال گلنے والی نہیں۔‘‘
کیا الیکشن میں دھاندلی ہوئی؟
سلمان عابد کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات سننے کو ملتے ہیں اور یہ بات درست ہے کہ ان انتخابات میں بھی جعلی ووٹ ڈالنے، فارم پینتالیس پر پولنگ شروع ہونے سے پہلے ہی دستخظ کروا لینے اور مخصوص مقاصد کے لیے انٹرنیٹ کی بندش کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو الیکشن مہم چلانے ہی نہیں دی گئی، نہ ان کے پاس اپنی پارٹی کا نام تھا، نہ ان کا لیڈر ان کے پاس تھا، ان کو جلسے کرنے کی اجازت بھی نہ مل سکی۔''یہ الیکشن آٹھ فروری کے الیکشن کا ایکشن ری پلے تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس میں رات کو کام دکھایا گیا تھا یہاں دن کی روشنی میں چاند چڑھایا گیا۔‘‘
سلمان عابد کہتے ہیں کہ اس الیکشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے لیے مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی دونوں نے کوئی خاص انتخابی مہم نہیں چلائی ایک کو پتا تھا کہ اسے جیتنے نہیں دیا جائے گا اور دوسرے کو پتا تھا کہ رزلٹ کیا آنا ہے۔ کسی بھی جگہ وزرا نے انتخابی جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کرتے دکھائی نہیں دیے، کہیں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان نہیں ہوا۔
ایک اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات درست نہیں۔ نون لیگ کی اپنی چھوڑی ہوئی نشستیوں کا انہیں مل جانا تو حیران کن نہیں لیکن وزیر آباد میں پی ٹی آئی کی خالی کردہ نشست پر نون لیگ کے امیدوار کی فتح سے لگتا ہے کہ نون لیگ اپنے کارکنوں کو باہر نکالنے میں اس الیکشن میں کامیاب رہی ہے۔ سلمان غنی اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے کہ لوگوں نے مسلم لیگ نون کی کارکردگی سے متاثر ہو کر انہیں ووٹ دیے ہیں ۔ ان کے خیال میں پی ٹی آئی کا کارکن ''ڈی مورالائز‘‘ ہونے کی وجہ سے باہر نہیں نکلا۔
کم ٹرن اوٹ، ووٹرز کا خاموش احتجاج
سلمان عابد کے بقول اس ضمنی الیکشن میں پچھلے الیکشنز کی نسبت بہت ہی کم ٹرن آوٹ نظر آیا جو کہ ووٹرز کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ لوگوں نے سمجھ لیا تھا کہ ان کے ووٹ سے کوئی تبدیلی نہیں آنی اس لیے ووٹ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ''یہ بہت خطرناک رجحان ہے جو ظاہر کر رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ساکھ مجروح ہو چکی ہے اور لوگوں کا سیاسی عمل سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ کنٹرولڈ انتخابی نتائج کا حصول جمہوریت کہ راہ میں بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔‘‘
’’لگتا ہے کچھ نہ کچھ ہوا ہے‘‘
سٹی فورٹی ٹو نیوز کے گروپ ایڈیٹر اور پاکستان کے ممتاز صحافی نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان انتخابات میں کھلی دھاندلی ہوئی ہے لیکن لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہے۔ ان کے بقول پاکستان مسلم لیگ نون کے کچھ لوگ بشمول جاوید لطیف اور رانا ثنا اللہ ببانگ دہل کہہ رہے تھے کہ آٖٹھ فروری کے الیکشن میں ان کی جماعت کو مارجنلائز کیا گیا۔ اور نواز شریف کو بے عزت کرنے کے لیے ان کے حلقے میں شام کو ہی یاسمین راشد کی فتح کی خبریں پھیلا دی گئیں۔ اب ان نتائج سے لگتا ہے کہ ان کی بھی تشفی اور تسلی ہو گئی ہوگی۔ یہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں کہ کس پارٹی کو کس سائز میں رکھنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی کہتے رہے ہیں کہ ایک شخصیت کے دورہ امریکہ کے بعد انہیں مائنس کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔