طالبان اقتدار میں: ن لیگ خاموش، قوم پرستوں کی مخالفت
18 اگست 2021پاکستان پیپلز پارٹی کا دعوی ہے کہ اس نے ایک حوالے سے طالبان قبضے کی مخالفت کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سجاد مہدی کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے ایک اصولی موقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارٹی نے کھل کر افغانستان میں خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی طرف داری کی ہے۔ تو طالبان کی سوچ کے خلاف ایک حوالے سے پارٹی نے ایک بہتر پوزیشن لی ہے اور کا بل کے ٹیک اوور کی مخالفت کی ہے۔‘‘
قوم پرستوں کی مخالفت
پشتون قوم پرست کھل کر افغان طالبان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور خیبرپختونخواہ کے سابق صوبائی وزیر سردار حسین بابک کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہم جمہوریت، عوام کے حقوق اور تہذیب اپنے لئے بھی چاہتے ہیں اور افغانستان کے لئے بھی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں بندوق کی نوک پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیا جرمنی میں یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلح گروپ اقتدار پر قبضہ کر لیں؟ کیا امریکا برداشت کرے گا کہ کوئی مسلح گروپ وہاں اقتدار پر قبضہ کر لے؟ کیا کسی اور مغربی ملک میں ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘
سردار حسین بابک کے بقول مغرب منافقت کا مظاہرہ کر رہا ہے، ''وہ اپنے ہاں جمہوریت چاہتے ہیں۔ خواتین کے حقوق چاہتے ہیں، انسانی حقوق چاہتے ہیں لیکن وہ افغانستان میں بندوق کے بل پر اقتدار میں آنے والوں کی حمایت کر رہے ہیں، یہ سراسر منافقت ہے۔‘‘
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر سردار شفیق ترین کا کہنا ہے کہ جس طرح طالبان اقتدار میں آئے ہیں یہ کوئی جمہوری طریقہ نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیوں کہ افغان طالبان جمہوری طریقے سے اقتدار میں نہیں آئے ہیں، تو ان کو دنیا ابھی تک تسلیم نہیں کر رہی ہے نہ پڑوسی ممالک تسلیم کر رہے ہیں اور ہم بھی ان کو حکمران نہیں مانتے۔‘‘
ان کے بقول ان کی پارٹی افغانستان میں ان کو تسلیم کرے گی، جو عوام کے ووٹوں سے اور جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئیں گے، ''افغانستان میں انتخابات ہونے چاہئیں اور جمہوری طریقے سے جو بھی اقتدار میں آئے، پھر اس کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘‘
نون لیگ کی خاموشی
لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ نون لیگ بنیادی طور پر دو عوامل کی وجہ سے افغان طالبان کی کھل کے مخالفت نہیں کر رہی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بات تو واضح ہے کہ اس وقت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ افغان طالبان کی حامی ہے۔ نون لیگ میں بہت سارے عناصر ایسے ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔ تو ایک ناراضی کا عنصر ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ نون لیگ کے ووٹرز کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے، جو ووٹ تو نون لیگ کو دیتا ہے لیکن نظریاتی طور پر اس کی ہمدردی افغان طالبان کے لئے ہے اور وہ افغان طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
حبیب اکرم کے بقول نون لیگ کو خدشہ ہے کہ اگر اس نے افغان طالبان کی کھل کر مخالفت کی تو اس کے ووٹرز کا ایک بڑا حصہ اس سے کٹ جائے گا۔ یہ دوسرا عنصر ہے، جو نون لیگ کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ طالبان کیخلاف کھل کر بات نہ کریں۔
’سیاسی جماعتوں کی مجبوریاں‘
پی ٹی ایم کے رہنما ڈاکٹر سعد عالم محسود کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کی طلب میں رہتی ہیں۔ اس لئے اس طالبان کے قبضے کی مخالفت نہیں کر رہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نون لیگ سیمت کچھ جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے خوف کی وجہ سے طالبان کی مخالفت نہیں کر رہیں اور کچھ کو یہ خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے مخالفت کی تو پھر پاکستانی طالبان ان پر حملہ کریں گے۔‘‘ ان کے بقول سیاسی جماعتوں کی اسی بزدلی کی وجہ سے ملک میں سول برتری اور آئین کی بالادستی قائم نہیں ہو رہی۔
ن لیگ کا موقف
نون لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ نون لیگ نے اس مسئلے پر خاموشی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کے خوف کی وجہ سے کی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسٹیبلشمنٹ تو پہلے ہی ہم سے ناراض ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ حکومت نے ابھی تک پالیسی بیان نہیں دیا۔ ہم یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت پارلیمنٹ کا اجلاس بلائے۔ وہاں پر پوری طرح صورتحال سے آگاہ کیا جائے اور پھر پارلیمنٹ کے متفقہ موقف کو عوام کے سامنے لایا جائے۔‘‘
پرویز رشید کے بقول جب حکومت اپنا موقف ن لیگ کو بتا دے گی تو پھر پارٹی اس مسئلے پر بات چیت کرے گی، ''ابھی تک پارٹی نے اس پر کوئی اجلاس نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس پر بات چیت کی ہے۔‘‘
ووٹ کی عزت ہر جگہ ہونی چاہیے
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی ذاتی رائے میں نہ کسی کو اقتدار میں اس طرح آنا چاہیے، جیسے افغان طالبان آئے ہیں اور نہ ہی اقتدار سے اس طرح جانا چاہیے، جیسے کہ اشرف غنی کو جانا پڑا، ''میری ذاتی رائے میں اقتدار میں آنے کے لیے بھی ووٹ اور جمہوریت کا طریقہ کار اپنانا چاہیے اور انتقال اقتدار کے لئے بھی جمہوری اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ووٹ کو عزت دینے کی بات ہم صرف پاکستان میں نہیں بلکہ اپنے پڑوسی ممالک کے حوالے سے بھی کرتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں جو کچھ بھی ہونا چاہیے وہ جمہوری انداز میں ہونا چاہیے اور ووٹ کے ذریعے ہونا چاہیے۔