طالبان رہنما بات چیت کے خواہشمند ہیں، ہالبروک
25 اکتوبر 2010پاکستان اور افغانستان کے لئے اوباما انتظامیہ کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک نے امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این کے ایک پروگرام میں بات چیت میں کہا ہے کہ کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کے عمل میں انتہاپسند تنظیم طالبان کے کئی نمایاں رہنما بھی شرکت کے متمنی ہیں۔ ہالبروک کے خیال میں سردست طالبان لیڈر امکانی طور پر رابطہ بحال کر کے صورت حال کو موضوع بحث لانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ افغانستان میں انتہاپسندوں کے خلاف جاری جنگ کو دسواں سال ہے۔
امریکی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان کی بات چیت میں دلچسپی کی بڑی وجہ یقینی طور پر نیٹو کی آئی سیف دستوں کے خصوصی آپریشن بھی ہو سکتے ہیں۔ ان میں گزشتہ دنوں سے شدت دیکھی جا رہی ہے۔ ان مبصرین کے مطابق طالبان بات چیت کے عمل کا عندیہ دے کر تاخیری حربہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ مبصرین کے خیال کی تائید ہالبروک بھی کرتے ہیں اور ان کے مطابق یہ اس دباؤ کا نتیجہ ہے جو جنرل پیٹریاس کی قیادت میں شروع کثیر الجہتی آپریشن کا نتیجہ ہے۔ ہالبروک کا خیال اس بات کے حق میں ہے کہ واشنگٹن حکومت افغان صدر حامد کرزئی کی بات چیت کے عمل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
دوسری جانب نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان لیڈروں کو ان کے ٹھکانوں سے محفوظ انداز میں باہر نکل کر پاکستان یا کابل تک پہنچانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔ افغان جنگ پر گہری نگاہ رکھنے والے اس عمل کو جنرل پیٹریاس کی اس حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں جو فائٹ اور ٹاک پر مبنی ہے۔ امریکہ نے طالبان ٹھکانوں پر ڈرون حملوں میں اضافہ کر رکھا ہے جو طالبان قیادت کے لئے خاصی پریشانی کا باعث ہے۔
افغان صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے رچرڈ ہالبروک کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کوئی ہوچی منہ ہے اور نہ ہی سلابودان میلوسووچ اور کوئی فلسطینی انتظامیہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ تمام بکھرے ہوئے گروپ ہیں جن میں میں حقانی نیٹ ورک ، ملاعمر، پاکستانی طالبان، حزب اسلامی، لشکر طیبہ اور القاعدہ ہیں۔ ہالبروک کے مطابق القاعدہ کے علاوہ بقیہ گروپوں سے بات چیت ممکن ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ جنگ میں فوجی کارروائی اپنی جگہ لیکن سیاسی عنصر کی موجودگی بھی اہم ہے اور امریکہ اس کا ہر پہلو سے جائزہ لے رہا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل