طالبان سے متعلق شاہ محمود قریشی کے بیان پر بحث
17 دسمبر 2020پاکستانی وزیر خارجہ نے یہ بیان بدھ کو افغان طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد دیا، جو پاکستان کے تین روزہ دورے پر سولہ دسمبر کو آیا تھا۔ وفد کی قیادت اہم طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں۔
طالبان کا دورہپاکستان، امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے دورے کے بعد ہوا۔ واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کی تھی۔
افغانستان ميں قيام امن کے ليے پاکستان کا مثبت کردار
افغانستان: کابل کے نائب گورنر سمیت تین افراد ہلاک
پاکستان میں کئی حلقے افغان طالبان کو نہ صرف افغانستان میں بدامنی اور دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں بلکہ ان کی تحریک کو وہ پاکستان کے سماجی ڈھانچے کے لیے بھی خطرناک سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں شاہ محمود قریشی کا یہ بیان افغان طالبان کو خوش کرنے کے مترادف ہے۔
تشدد کے ذمہ دار طالبان ہیں
معروف دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ ’’اور اگر شاہ محمود قریشی ان کو اس کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تو انہیں دہشت گردوں کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاحوں سے واقفیت نہیں۔ طالبان تو صرف نام دے دیا گیا ہے۔ درحقیت یہ دہشت گردی کا معاملہ ہے، جس کا مقصد افغانستان کی تقسیم ہے لیکن اگر ایسا کوئی عمل ہوتا ہے تو یہ صرف وہاں تک ہی محدود نہیں رہے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے طالبان سے مذاکرات کر کے ان کے حوصلے بڑھائے ہیں۔ ''امریکا نے ختم ہوتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دے کر دہشت گردی کو ہوا دی، جس سے وہاں تشدد میں اضافہ ہوا۔ تو امریکا بھی اس تشدد کا اس حوالے سے ذمہ دار ہے۔‘‘
امریکہ و نیٹو ذمہ دار
لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف مبصر ڈاکٹر فاروق سہلریا کا کہنا ہے بیرونی مداخلت افغانستان میں مسائل کی ایک اہم وجہ ہے۔ ''میرے خیال میں تشدد کی بنیادی ذمہ داری نیٹو اور امریکا پر ہوتی ہے۔ جو بھی افغانستان کے حالات سے واقف ہے وہ یہ ذمہ داری صرف طالبان پر نہیں ڈال سکتا۔ اس کے علاوہ پاکستان، ترکی، ایران، سوویت روس اور بیرونی عناصر کی وجہ سے بھی جنگ زدہ ملک کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
بیان منافقانہ ہے
ڈاکٹر سہلریا کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کا بیان 'منافقانہ‘ ہے۔ ''پاکستان کے حکمراں طبقے نے افغانستان میں چالیس سال سے بلکہ بھٹو کے دور سے ایک مجرمانہ کردار ادا کیا ہے اور وہاں شرمناک انداز میں مداخلت کی، جس کی قیمت پاکستان اور افغانستان کے عوام کو ادا کرنی پڑی۔ یہ بیان دے کر پاکستان یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ اب بھی افغان مسئلے کے حوالے سے اہم ہے لیکن اس اہمیت کا خمیازہ پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑا، جو چالیس برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو اے پی ایس کے حملے کی برسی والے دن طالبان سے گلے ملتے ہوئے شرم آنی چاہیے تھی۔‘‘
بیان حقیقت پسندانہ ہے
تاہم افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے کچھ اورمبصرین کے خیال میں شاہ محمود قریشی کا بیان حقیقت پسندانہ ہے کیونکہ افغانستان میں مسائل کافی پیچیدہ ہے اور صورت حال کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔
معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے یہ بیان طالبان کو خوش کرنے کے لیے نہیں دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''یہ بات صیح ہے کہ زیادہ تر تشدد طالبان کی طرف سے ہورہا ہے کیوں کہ کچھ حملے ایسے بھی ہورہے ہیں، جن کی وہ ذمہ داری نہیں لے رہے۔ لیکن اس تشدد کو کم کرنے کے ذمہ دار صرف طالبان نہیں ہیں کیونکہ افغانستان میں داعش نے بھی کئی حملوں کی ذمہ داری لی ہے۔ افغان فورسز کی طرف سے آپریشنز ہوتے ہیں، جس میں سویلین مارے جاتے ہیں اور لوگ انتقاماﹰ طالبان کو جوائن کرتے ہیں۔ امریکا بھی بمباری کرتا ہے، جس میں عام آدمی مارا جاتا ہے۔ تو تشدد تمام اطراف سے ہو رہا ہے اوریہ صرف طالبان کی طرف سے نہیں ہے۔‘‘
ان کا مذید کہنا تھا کہ اس دورے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان معلوم کرے کہ دوحہ مذاکرات میں کیا ہورہا ہے۔ ''دوحہ میں مذاکرات صرف افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہورہے ہیں۔ تو اسلام آباد یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کیا بات ہو رہی ہے اور یہ کہ پاکستان کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ دورہ پچھلے دورں کا تسلسل ہے، جس کا مقصد مذاکرات کو آگے بڑھانا ہے۔‘‘
طالبان کے پاس کوئی چوائس نہیں
معروف دفاعی تجزیہ کارجنرل امجد شعیب بھی رحیم اللہ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تشدد کے ذمہ دار صرف طالبان نہیں۔ ''اور صرف طالبان تشدد کو کم نہیں کر سکتے۔ اگر افغان حکومت اس مسئلے میں سنجیدہ ہے تو وہ اپنے آپریشنز روکے۔ امریکا کو بھی بمباری روکنی چاہیے، جس سے سویلین کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ تو ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جا سکتی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان جنگ بندی نہیں کریں گے۔ ''کیونکہ ان کے خیال میں اگر انہوں نے لڑائی روک دی تو ان کی کوئی نہیں سنے گا یا ان کو اہمیت نہیں دی جائے گی۔ تو وہ مکمل جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ افغان حکومت اعلان کر دے کہ ہم طالبان پر حملے نہیں کریں گے اور اس کے جواب میں طالبان بھی تشدد کم کرنے پر تیار ہوجائیں لیکن مکمل جنگ بندی ابھی ممکن نظر نہیں آتی۔‘‘