طالبان سے مذاکرات: افغان وزیر خارجہ قطر جائیں گے
10 مارچ 2012کابل میں افغان وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ آئندہ دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششیں آئندہ دنوں میں تیز رفتار ہو سکتی ہیں۔ افغان وزارت خارجہ کے ترجمان موسیٰ زئی نے آج ہفتےکے روز بتایا کہ ظلمے رسول تقریبا ایک ہفتے تک قطر جائیں گے۔
افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں نے جنوری میں اعلان کیا تھا کہ وہ قطر میں اپنا ایک سیاسی دفتر کھولیں گے۔ اس اعلان سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ شاید طالبان کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شمولیت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شروع میں کابل حکومت نے طالبان کے امریکی حکام کے ساتھ خلیجی عرب ریاست قطر میں ممکنہ مصالحتی مذاکرات کے بارے میں زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔
افغان صدر حامد کرزئی تو بہت زیادہ ناراض تھے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں قطرکا رویہ ضرورت سے زیادہ فیصلہ کن ہوتا جا رہا تھا اور خود کرزئی کو اس بارے میں نہ تو کچھ علم تھا اور نہ ہی ان سے مشاورت کی گئی تھی۔
حامد کر زئی کو یہ تشویش بھی تھی کہ شاید کابل حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شامل بھی نہ کیا جائے۔ اس پس منظر میں صدر کرزئی نے دوحہ سے افغان سفیر کو بھی احتجاجاﹰ واپس بلا لیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے کے ان حالات کے برعکس اب صورتحال کافی بہتر نظر آنے لگی ہے۔ افغان حکومت کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ وزیر خارجہ ظلمے رسول کا آئندہ دورہء قطر ایک انتہائی اہم پیش رفت ہو گی۔ اسی افغان حکومتی اہلکار نے اس امکان کی طرف بھی اشارہ کیا کہ قطر میں متعین افغان سفیرجلد ہی واپس دوحہ لوٹ جائیں گے۔
افغان حکام اب تک یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ قطر میں ہونے والی آئندہ امن بات چیت کی حمایت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی افغان حکومت کا یہ مطالبہ بھی بہت اہم ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو زیادہ ٹھوس اور آسان بنانے کے لیے سعودی عرب اور ترکی بھی اس عمل میں اپنا کردار ادا کریں۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے قطر میں ہونے والی مجوزہ مکالمت بنیادی طور پر امریکہ اور طالبان کے مابین بات چیت ہو گی۔ امریکہ یہ امید لگائے ہوئے ہے کہ اگر وہ طالبان عسکریت پسندوں کے نمائندوں کو جلد ہی مذاکرات کی میز پر لے آتا ہے تو افغانستان میں سیاسی استحکام کافی جلد دیکھنے میں آسکتا ہے۔ واشنگٹن حکومت افغانستان میں سلامتی اور استحکام کی صورتحال میں جلد بہتری کی خواہش اس لیے کرتی ہے کہ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔
سن دو ہزار چودہ کے آخر تک افغانستان سے تمام غیر ملکی جنگی دستے واپس بلا لیے جائیں گے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان کے ساتھ کوئی نہ کوئی فیصلہ کن پیش رفت اتحادی دستوں کے افغانستان سے انخلا سے پہلے عمل میں آنی چاہیے۔
طالبان کی طرف سے قطر میں ان کا ایک سیاسی رابطہ دفتر کھولے جانے کی پیش کش کے بعد امریکہ کے طالبان کے ساتھ ابتدائی مذاکراتی رابطے جرمنی میں ہوئے تھے۔ اس ابتدائی پیش رفت کے بعد امریکہ اب یہ چاہتا ہے کہ قطر میں طالبان کے ساتھ باقاعدہ امن بات چیت کے آغاز میں زیادہ دیر نہیں ہونی چاہیے۔
رپورٹ: عصمت جبیں ⁄ روئٹرز
ادارت: شامل شمس