طالبان سے مذاکرات ضروری، برطانوی پارلیمانی کمیٹی
2 مارچ 2011برطانیہ کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے بدھ کے روز اپنی ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ براہ راست امریکی مذاکرات ضروری ہیں۔ کمیٹی نے برطانوی حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی مہم کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، لہذا وہ طالبان لیڈروں سے براہ راست مذاکرات کرنے کے لیے واشنگٹن حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔
پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کی باعزت واپسی کے لیے ضروری ہے کہ افغان قیادت کے تحت سیاسی مصالحت کےعمل شروع کیا جائے۔ پارلیمانی کمیٹی میں پیش کی گئی یہ رپورٹ مختلف سیاسی ماہرین اور حکام سے انٹرویو کرنے کے بعد مرتب کی گئی ہے۔
برطانیہ اور امریکہ پہلے بھی افغانستان میں سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتے آئے ہیں۔ رپورٹ تیار کرنے والی کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوجی دباؤ کے تحت عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد ملی ہے۔
کئی ممالک کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات خفیہ طور پر پہلے ہی سے جاری ہیں تاہم اب ان کا باقاعدہ آغاز کیا جائے گا۔ دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ کھلے عام مذاکرات اس وقت تک نہیں کیے جا سکتے، جب تک غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل نہیں جاتیں۔
افغان صدر حامد کرزئی نے منگل کے روز افغانستان اور پاکستان کے خصوصی امریکی مندوب مارک گروس مین سے ملاقات کی ہے۔ امریکی مندوب کا افغان صدر کے ساتھ مشترکہ کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا،’ ابھی وقت ہے کہ طالبان نیا سفر شروع کر سکتے ہیں۔ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے یہ ایک فیصلہ کن سال ہے۔‘
رواں ہفتے سعودی عرب میں اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے ایک اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس اجلاس میں افغان امن کونسل کے قائدین کے ساتھ ساتھ 40 سے زائد ممالک کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں مفاہمتی کوششوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف بلوچ