طالبان نے ملا عمر کی سوانح شائع کر دی
5 اپریل 2015خبر رساں ادارہ اے ایف پی لکھتا ہے کہ افغان طالبان میں سے بعض اپنے رہنما ملا عمر سے بے زار ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ کی سنی عسکری تنظیم آئی ایس اسلامی جہادیوں کے لیے مشعل راہ کا کام انجام دے رہی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس تنظیم نے القاعدہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، آئی ایس شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قابض ہو چکی ہے۔ جہاں جہاں یہ تنظیم قبضہ کر رہی ہے وہاں وہاں اس کے سربراہ ابوبکر الابغدادی نے خلافت کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ صورت حال طالبان ہی کیا دنیا کہ بیشتر اسلام پسندوں کو اپنی جانب راغب کر رہی ہے۔
ایسے وقت میں ملا عمر کی زندگی کے بارے میں تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر شائع کر کے شاید طالبان نے یہ بتانے کی کوشش کی ہو کہ ان کا رہنما کسی طرح بغدادی سے کم نہیں ہے۔
یہ سوانح ملا عمر کے طالبان کی سربراہی کے انیس سال پورے ہونے کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔ اس سے طالبان نے اس تاثر کو بھی غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ پراسرار جہادی اب حیات نہیں ہے۔ سوانح میں بتایا گیا ہے کہ ملا عمر اب بھی جہادی کارروائیوں میں مصروف عمل ہے۔
سوانح میں مزید لکھا ہے، ’’دشمن کی جانب سے ہمہ وقت سراغ لگائے جانے کی کوششوں کے باوجود ملا عمر کی روز مرہ کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔ وہ اب بھی اسلامی امارات کی جہادی سرگرمیوں کی قیادت کرتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ انیس سو چھیانوے سے سن دو ہزار ایک تک طالبان نے افغانستان پر حکومت کی تھی اور اس ملک کو اسلامی امارات کا نام دیا تھا۔ ستمبر سن دو ہزار ایک میں امریکا میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں اور اس کے بعد امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔
سوانح میں ملا عمر کی ’’کرشماتی شخصیت‘‘ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کی بہادری کی مثالیں پیش کی ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ عمر کا پسندیدہ ہتھیار آر پی جی سیون گرینیڈ لانچر ہے۔
طالبان سے متعلق امور پر دسترس رکھنے والے احمد سعیدی کا بھی کہنا ہے کہ اس سوانح کو ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے کا مقصدر اسٹریٹیجک ہے اور داعش کے اثر کو زائل کرنا ہے۔ خیال رہے کہ داعش ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کا عربی مترادف ہے۔
ملا عمر کہاں ہے اور کس حالت میں ہے اس بارے میں کوئی بھی بات یقین سے نہیں کی جا سکتی۔ اس سوانح کے سامنے آنے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ ماہرین ملا عمر سے متعلق بہت سی باتیں جان پائیں گے، تاہم یہ باتیں کتنی سچ ہیں اور کتنی جھوٹ اس بابت بھی صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
shs/ai